جسٹس دھولیا نے کہا ’لڑکیوں کی تعلیم ضروری ہے‘

حجاب کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آ گیا ہے اور دونوں جج حضرات کی رائے الگ الگ ہے اس لئے اب اس معاملہ کی سنوائی سپریم کورٹ کی بڑی بنچ میں ہوگی۔

حجاب، تصویر یو این آئی
حجاب، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ میں 10 روز تک حجاب معاملہ کی طویل سماعت کے بعد بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ حجاب کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے، لیکن دونوں ججوں (ہیمنت گپتا اور سدھانشو دھولیا) کی رائے مختلف ہے، دو رکنی بنچ نے اس معاملہ کی سنوائی کی، لیکن بنچ کے دونوں جج کی رائے اس معاملہ کو لے کر مختلف تھی اس لئے اب اس معاملہ کی سنوائی بڑی بنچ کرے گی۔

بنچ کے چیئرمین جسٹس ہیمنت گپتا نے بھی کہا کہ وہ اب یہ معاملہ چیف جسٹس کو بھیج رہے ہیں اور انہیں اس معاملے میں ایک مناسب بنچ تشکیل دینا چاہئے۔ ملی خبروں کے مطابق جسٹس گپتا نے نے کہا کہ ان کے خیال میں ان تمام سوالوں کے جواب درخواسست گزاروں کے خلاف ہے اس لئے وہ اس کے خلاف اپیل خارج کرتے ہیں۔ یعنی ان کی نظر میں کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ صحیح ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 19، 21، 25 کے تحت طلباء کو کپڑوں کے انتخاب کا حق ہونا چاہئے؟ آرٹیکل 25 کی حد کیا ہے؟ ذاتی آزادی اور رازداری کے حق کی تشریح کیسے کی جائے؟


جسٹس ہیمنت گپتا کے برخلاف بنچ میں ان کے ساتھی جسٹس سدھانشو دھولیا کا ماننا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم ضروری ہے کیونکہ وہ بہت سی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد پڑھنے آتی ہیں اور حجاب پر پابندی کی وجہ سے اسکول اور کالج میں ڈراپ آؤٹ بڑھ گیا ہے اس لئے ان کی نظر میں ہائی کورٹ کو مذہبی ضرورت کے سوال پر نہیں جانا چاہئے تھا۔ اسے ذاتی انتخاب کے طور پر دیکھا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی رائے جسٹس ہیمنت گپتا سے مختلف ہے اور وہ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کرتے ہیں۔

واضح رہے 15 مارچ کو دیئے گئے فیصلے میں کرناٹک ہائی کورٹ نے ڈریس کوڈ پر عمل کرنے کے حکم کو برقرار رکھا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں 24 درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ کیس کی 10 روزہ سماعت کے دوران حجاب کے حامیوں کے دلائل بنیادی طور پر مذہبی آزادی اور ذاتی پسند پر مرکوز تھے۔ اس کے ساتھ ہی ریاستی حکومت نے اسکول کالج میں نظم و ضبط کے نکتہ پر زور دیا۔


حجاب کی حمایت کرنے والے درخواست گزاروں کی جانب سے سینئر وکیل دشینت دوے، سلمان خورشید، حذیفہ احمدی، دیودت کامت اور سنجے ہیگڑے نے دلائل دیئے۔ انہوں نے کہا کہ حجاب کو مذہبی سمجھتے ہوئے لڑکیاں اپنے سر پر یکساں رنگ کا اسکارف پہنتی ہیں تو اس سے کسی اور طالب علم کے حقوق متاثر نہیں ہوتے۔ اس لیے حکم امتناعی غلط ہے۔

یہ معاملہ اکتوبر 2021 سے شروع ہوا، جب پی یو کالج کی کچھ طالبات نے حجاب پہننے کا مطالبہ کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد معاملہ دبا دیا گیا لیکن 31 دسمبر 2021 کو اوڈوپی کے گورنمنٹ پی یو کالج میں حجاب پہنے 6 طالبات کو کلاس میں آنے سے روک دیا گیا۔ جس کے بعد کالج کے باہر مظاہرے شروع ہو گئے اور معاملہ کھل کر سامنے آیا اور معاملہ اسی دن ہائی کورٹ پہنچ گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */