اردو کا ایک گمنام عاشق نند لال نیرنگ سرحدی... جمال عباس فہمی

اردو کے اس عظیم شاعر، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور مترجم کی اس کے جیتے جی اس کے شایان شان پذیرائی نہیں ہوئی۔

نند لال نیرنگ سرحدی
نند لال نیرنگ سرحدی
user

جمال عباس فہمی

یہ اردو کے ایک ایسے قلمکار کا افسوسناک قصہ ہے جو شاعر، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، مترجم اور خوش نویس تھا۔ جسے اردو کے معروف شاعر تلوک چند محروم اور ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کا شاگرد ہونے کا شرف حاصل تھا۔ جو اردو، فارسی، پشتو، سنسکرت اور انگریزی سمیت 9 زبانیں جانتا تھا۔ وہ اردو ادب کا واحد ایسا قلم کار ہے جس نے سوانح حیات نثر میں نہیں بلکہ نظم میں مسدس کی شکل میں تحریر کی۔ جو اردو اور فارسی میں شعر کہتا تھا۔ اپنے کلام کو مجموعے کی شائع شدہ شکل میں دیکھنے کی حسرت لئے دنیا سے گزر گیا۔

جی ہاں یہ قصہ ہے نند لال نیرنگ سرحدی کا، نند لال نیرنگ سرحدی کا مجموعہ کلام ان کے انتقال کے 49 برس کے بعد شائع ہوا۔ نیرنگ سرحدی کی شاعرانہ عظمت سے زمانہ ان کی کمزور مالی حالت اور اردو کے ارباب اختیار کی عدم توجہی کی بدولت محروم رہا۔ تاریخ کے نہاں خانے میں پڑے اس عظیم اردو قلمکار کو منظر عام پر لانے کا سہرا شاعر، محقق، ناقد، مصنف، تجزیہ نگار اور تبصرہ نگار ڈاکٹر تقی عابدی کے سر ہے، جو تاریخ کے گردو غبار کو صاف کرکے اردو کے ہیروں سے دنیا کو روشناس کرانے کا کام کرتے رہتے ہیں۔ تقی عابدی نے ''تعمیر بقا'' کے نام سے ان کا تمام کلام مع ان کی ڈائریوں کے مرتب کر دیا ہے، نند لال نیرنگ سرحدی کی ادبی خدمات کا ذکر کرنے سے پہلے آئیے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیم و تربیت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔


نند لال نیرنگ سرحدی کا اصل نام نند لال تھا۔ جب شاعری شروع کی تو نیرنگ تخلص اختیار کیا۔ سرحدی ان کے نام کا لاحقہ ہے۔ سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خاں سے عقیدت کے سبب وہ خود کو سرحدی لکھتے تھے۔ وہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خاں، جو اب پاکستان میں ہے، کے مندھر میں 6 فروری 1912 میں پیدا ہوئے۔ مڈل اور میٹرک کرنے کے بعد لاہور کے اوریئنٹل کالج میں داخلہ لیا لیکن خرابی صحت کے سبب تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ 1937 میں 25 برس کی عمر میں ادیب، عالم اور منشی کا امتحان پاس کیا اور درس و تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ ہو گئے۔ مقامی مڈل اسکول میں فارسی پڑھانے پر مامور ہوئے۔ 1938 میں پشاور کے خالصہ ہائی اسکول میں فارسی اور اردو کے ٹیچر کے طور پر تقرر ہوگیا۔ درس و تدریس سے وابستگی شعر گوئی اور دیگر قلمی کاوشوں کے ساتھ آخری عمر تک باقی رہی، تقسیم وطن کے بعد 1947 میں ہجرت کرکے ہندوستان آگئے اور ہریانہ کے ریواڑی کو مسکن بنا لیا۔ وہاں کے اہیر اسکول میں فارسی پڑھانے لگے۔ اس کے بعد ہندو اسکول میں استاد ہو گئے۔ شعر گوئی کا آغاز نویں جماعت سے کر دیا تھا۔ ان کا ادبی ذوق مولانا عطاء اللہ خاں کی سرپرستی میں پروان چڑھا۔ ڈیرہ اسماعیل خاں سے مولانا کے چلے جانے کے بعد عرصہ دراز تک خط و کتابت کے ذریعے ان سے اصلاح لیتے رہے۔

کچھ عرصہ بعد تلوک چند محروم کی شاگردی میں آگئے۔ تلوک چند محروم ڈیرہ اسماعیل خاں کے ایک اسکول میں مُدرس تھے۔ ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض سے ملاقات سرحدی گاندھی کے توسط سے ہوئی۔ فیض بھی سرحدی گاندھی سے بہت قربت رکھتے تھے۔ نیرنگ سرحدی فیض احمد فیض کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ نیرنگ سرحدی فیض کے حلقہ شاگرداں میں ایک برس تک رہے۔ نیرنگ نے منظوم سوانح کے ایک فارسی بند میں فیض احمد فیض سے کسب فیض کا ذکر کیا ہے۔ نیرنگ سرحدی کی منظوم سوانح کے متعدد بند اور کچھ بندوں کی ابیات فارسی میں ہیں۔ نیرنگ سرحدی نے فیض کی شاگردی کا ذکر منظوم سوانح حیات میں اس طرح کیا ہے۔

مرا شرف تلمز شد بہ قدم فیض احمد خاں

 بد و زانو نشستہ ام بہ پیش خدمت ذیشاں

 رجوع خدمتش یک سال کردم با ہمہ یاراں

فنون شاعری آموختہ ام بیش از دگراں

نمی دانم کہ احسانش چگونہ بر زباں آرم

نہ طرز گفتگو دارم کہ آں را درمیاں آرم


 اس بند کا ترجمہ یہ ہے کہ

مجھے فیض احمد خاں کی شاگردی کا شرف ملا

میں نے ان کے سامنے زانوئے ادب طے کیا

 میں ایک برس تک دوستوں کے ساتھ ان کی خدمت میں جاتا رہا

 شاعری کے فن دوستوں کی نسبت میں نے زیادہ سیکھے

مجھے نہیں معلوم کہ ان کے احسان کو کس طرح زبان سے ادا کروں

نہ مجھے وہ گفتگو کا طریقہ آتا ہے جس سے میں ان کا احسان ادا کروں

نیرنگ سرحدی نے تقریباً تمام اصناف سخن میں طبیعت آزمائی ہے۔ انہوں نے نعت، مناجات، غزل، نظم، مثنوی، رباعی، قطعہ، شخصی مراثی، مسدس، مخمس اور ترجیح بند کہے۔ اردو کی نسبت ان کا فارسی کلام بہت کم ہے۔ انہوں نے کئی معروف انگریزی شعرا کے کلام کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ نیرنگ نے جیمس رسل لاول، راف والڈو ایمرسن، جان ہئے۔ آئزیک واٹس۔ تھامس کیمپ بیل اور ایلیزا کوک کی ایک ایک نظم کا اردو میں منظوم ترجمہ کیا ہے۔ آج کے دور میں انگریزی شعرا اور مصنفین کی نگارشات کو اردو قالب میں ڈھالنے کا رواج عام ہے لیکن نیرنگ نے جس دور میں انگریز شعرا کے کلام سے اردو داں طبقے کو واقف کرایا یہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے 'مکان'، 'ڈاکخانہ' اور 'کانٹا ' کے عنوان سے تین افسانے اور 'دیوان ساون مل کا دربار' کے عنوان سے ایک ڈرامہ بھی لکھا۔ انہوں نے بڑی تعداد میں نظمیں کہیں۔ انہوں نے مختلف مذہبی ہستیوں کو نظموں کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیا۔ متعدد نظمیں حب الوطنی کے جذبات سے سرشار ہیں۔ ان کی نظموں سے مذہبی رواداری، اتحاد اور یگانگت کی خوشبو آتی ہے۔ اردو کی حالت زار سے وہ بہت فکر مند تھے۔ اللہ سے مناجات میں درد دل یوں بیان کیا۔

بات کرنے کا بُھلا بیٹھا قرینہ یارب

لب ہلاتا ہوں تو آتا ہے پسینہ یارب

ہائے لٹتا ہے بزرگوں کا خزینہ یارب

غرق ہونے کو ہے اردو کا سفینہ یارب

نالہ درد کو کہتے ہیں رسا ہوتا ہے

نا خدا جس کا نہ ہو اس کا خدا ہوتا ہے


ایک اور شعر میں اردو سے اپنی محبت اور اس کے تئئیں لوگوں کے بدلتے رویہ سے دلبرداشتگی کا اظہار کیا۔

 زیادہ اس سے توہین ادب کیا ہوگی اے نیرنگ

بزرگوں کی زباں کو بھی زباں ہم کہہ نہیں سکتے

.....

نیرنگ کے دل میں اردو کی کما حقہ خدمت نہ کر پانے کی ایک خلش تھی۔

جو ہوتی قدر متاع ہنر کی اے نیرنگ

 یہ آرزو تھی کہ کچھ خدمت زباں کرتے

.....

نیرنگ کو رسول اسلامؐ سے بہت عقیدت تھی۔ نعت میں رسول اللہؐ اور ان کے شہر سے اپنی عقیدت کا اظہار یوں کیا۔

کیوں کر نہ کروں مدحت سلطان مدینہ

جب پیش نظر ہوں مرے فیضان مدینہ

کچھ اور مقامات بھی ہیں ارفع و اعلیٰ

ان سب سے زیادہ ہے مگر شان مدینہ

نیرنگ ہی نہیں زیر گرانباری احساں

ہر صاحب ایماں پہ ہے احسان مدینہ

نیرنگ سرحدی کو زمانے کے ہاتھوں اپنی ناقدری کا شدید احساس تھا جس کا انہوں نے اپنے اشعار میں اظہار کیا ہے۔ ایک شعر میں اللہ سے اس کا شکوہ کرتے ہیں۔

مرے جذبات جب دیتے ہیں پیغام بقا سب کو

مجھے ناقدرداں تو نے زمانہ کس لئے بخشا

سادگی اور سلاست ان کے اظہار بیان کا خاصہ ہے۔ انہوں نے ڈیڑھ سو سے زیادہ غزلیں کہیں۔ انہوں نے ہر قسم کے مضامین باندھے۔ ان کے بہت سے اشعار سہل ممتنع کا نمونہ ہیں۔

 ہجر ہی میں سحر نہ ہو جائے

شب کہیں مختصر نہ ہو جائے

.....

روز جاتے ہیں آئنہ خانے

ان کو اپنی نظر نہ ہو جائے

.....

ان کے وعدوں پہ زندگانی ہے

عمر یونہی بسر نہ ہو جائے

.....

سوال وصل تو مشکل نہ تھا میرے لئے کچھ بھی

طبیعت سے مگر تاثیر خود داری نہیں جاتی

.....

مزاج باغباں بدلا نہیں ہے

نظام گلستاں بدلا نہیں ہے

.....

بوقت مرگ تمنا نہ تھی کوئی دل میں

بس اتنا یاد ہے لب پر تمہارا نام رہا


اردو کے اس عظیم شاعر، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور مترجم کی اس کے جیتے جی اس کے شایان شان پذیرائی نہیں ہوئی۔ ریٹائر منٹ کے بعد پنشن پر ان کا گزارا تھا۔ بھرا پورا خاندان تھا۔ چار بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ سب کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا۔ طبیعت میں خودداری اتنی تھی کہ مشاعروں میں مدعو کئے جانے یا اخبارات و رسائل میں کلام کی اشاعت کے لئے کبھی کسی کے آگے زبان نہیں کھولی۔ انہوں نے کچھ مشاعروں میں حصہ بھی لیا کچھ اخبارات و رسائل میں ان کا کلام شائع بھی ہوا، ان کے انتقال کے بعد ان کے فرزند نریش نارنگ سلیم نے ہندی میں 'ایک تھا شاعر' کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی تھی۔

'تعمیر یاس' کے عنوان سے خود نیرنگ سرحدی اپنی زندگی میں اپنا مجموعہ کلام ترتیب دے چکے تھے اسے تلوک چند محروم کے فرزند اور اردو شاعر پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے مرتت کرکے شائع کیا۔ ان کی ایک کتاب ہندی میں 'مرنے کے بعد' کے عنوان سے بھی شائع ہوئی۔ ورلڈ اردو ایسو سی ایشن نامی تنظیم نے نیرنگ سرحدی کو بعد از مرگ 2021 میں 'محب اردو ایوارڈ' کے لئے منتخب کیا۔ ریواڑی میں ایک سڑک بھی ان کے نام کردی گئی ہے۔ یعنی اردو کے اس عظیم مجاہد کی زندگی بھر کی ادبی محنت و مشقت کا صلہ ایک عدد سڑک اور ایک محب اردو ایوارڈ ٹھہرا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔