ناشر نقوی۔ ایک ہمہ گیر شخصیت کا حامل قلمکار... جمال عباس فہمی

ناشر نقوی کی ادبی خدمات کا سرکاری اور غیر سرکاری سطح پراعتراف کیا جا چکا ہے۔ پنجاب حکومت نے انہیں ریاست کے اعلیٰ ترین، شرومنی اردو ساہتیہ کار ایوارڈ، اور ہریانہ حکومت نے اپنے اعلیٰ اعزاز سے نوازہ ہے۔

ناشر نقوی
ناشر نقوی
user

جمال عباس فہمی

کم ہی شخصیات اسم با مسمیٰ ہوتی ہیں۔ اردو کے ایک ایسے ہی قلمکار ناشر نقوی ہیں۔ ناشر نقوی بھی اسم با مسمیٰ ہیں۔ وہ تعلیمات محمد اور آل محمد کے ناشر ہیں۔ اردو شعر و ادب کے بھی ناشر ہیں۔ نشریاتی اداروں ریڈیو اوور ٹیلی ویزن سے بھی منسلک ہیں۔ ناشر نقوی شاعر،محقق، مرثیہ گو، مسدس نگار، مرتب، ماہر تعلیم، مدرس اور با کمال ناظم کی حیثیت سے عالم گیر شہرت کے مالک ہیں۔ انہوں نے کئی یونیورسٹیوں کے انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ طلبا کے لئے اردو کا نصاب از سر نو مرتب کیا، روحانی اور مذہبی اعتبار سے ان کا جو کارنامہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے وہ عالم تشیع کے آٹھویں امام کے ایک صاحب زادے کے روضے کی تلاش اور تعمیر و تزئین میں کلیدی رول ادا کرنا ہے۔ درس و تدریس کے تجربے کا یہ عالم ہے کہ 25 برس تک انڈر گریجیویٹ طلبا کو پڑھایا اور 24 برس تک پوسٹ گریجویٹ طلبا کو درس دیا۔ ان کی نگرانی میں اردو کے دس اسکالرز ڈاکٹر بن گئے۔ خود ان کی شخصیت اور ادبی خدمات پر اردو کے ایک ریسرچ اسکالر نے مقالہ تحریر کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ دو درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف ناشر نقوی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیم و تربیت کی معلومات حاصل کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔

15 جولائی 1956 کو پیدا ہونے ولے ناشر نقوی کا تعلق امروہہ کے ایک نہایت با عزت اور تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے۔ ان کا سلسلہ نسب کراماتی بزرگ سید حسین شرف الدین شاہ ولایت کے واسطے سے امام علی نقی تک پہنچتا ہے۔ ان کے والد سید ناظر حسین اردو، عربی اور فارسی کے عالم تھے۔ قادر الکلام شاعر تھے۔ حقیقی محب وطن تھے۔ ان کی حب الوطنی کا یہ عالم تھا کہ تقسیم وطن کے بعد نہ صرف یہ کہ خود پاکستان نہیں گئے بلکہ امروہہ کے سیکڑوں خاندانوں کو پاکستان جانے سے روکنے میں کامیاب رہے۔ تقسیم کے بعد بھڑکے فرقہ وارانہ فسادات سے دلبرداشتہ ہوئے اور فرقہ وارانہ اتحاد اور ہم آہنگی کے لئے کام کرتے رہے۔ بحیثیت شاعر کبھی منظر عام پر نہیں آئے لیکن یوم آزادی پر 15اگست کے عنوان سے قصیدہ لکھا اور اس کے ذریعے فرقہ وارانہ یکجہتی کا پیغام دیا۔ اس قصیدے کے کچھ نصیحت آمیز اشعار بطور نمونہ پیش ہیں۔


اگر یہ کشمکش آپس کی ہم سے دور ہو جائے

ہمیشہ کے لئے اک باب کھل جائے محبت کا

نہ دو ہنسنے کا موقع غیر کو آپس میں لڑ بھڑ کر

بہت نازک زمانہ ہے نہیں یہ وقت حجت کا

اگر مل کر رہیں گے رہبران قوم آپس میں

ابھی کیا ہے زمانہ ایک دن آئے گا عشرت کا

وطن اپنا ہے اپنا ملک ہے اپنی حکومت ہے

زیادہ اور اس سے وقت کیا ہوگا مسرت کا

ناشر نقوی نے امروہہ کے آئی ایم انٹر کالج سے انٹر میڈیٹ اور روہیل کھنڈ یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کیا۔ پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ سے سکھ اردو شعرا کے تقابلی مطالعہ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی۔ پنجاب کے محکمہ لسانیات سے پنجابی پر بودھ کا کورس کیا۔ جامعہ ملیہ کے یو جی سی اکیڈمک اسٹاف کالج سے اردو ادب میں تین ریفریشر کورس کئے۔ جے این یو سے صحافت کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ا پنی کھنک دار آواز کی بدولت آل انڈیا ریڈیو سے بحیثیت اناؤنسر بھی منسلک رہے۔ ناشر نقوی کی ادبی اور تدریسی سرگرمیوں کا اصل مرکز ہریانہ اور پنجاب رہے۔ ناشر نقوی اردو، فارسی، پنجابی یونیورسٹی پٹیالیہ کے پروفیسر اور صدر شعبہ رہے۔ ناشر نقوی کا تدریسی نوعیت کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے گرو نانک دیو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے نمائندے کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ اور پنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ کے انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ طلبا کے لئے اردو کا نصاب از سر نو مرتب کیا۔ اردو نصاب کے حوالے سے ناشر نقوی کے کارہائے نمایاں میں یہ بھی شامل ہے کہ پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ، گرونانک دیو یونیورسٹی، امرتسر اور پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ کے بورڈ آف اسٹیڈیز کے ممبر اور اردو کے ماہر کی حیثیت سے انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کے نصاب کا میعار بہتر کیا۔ این سی ای آر ٹی اور حکومت ہند کے ہندستانی زبانوں کے مرکز این آر ایل سی کی نصابی کتابوں کی تیاری میں بھی ان کا عملی تعاون شامل رہا۔


اردو کے 10 اسکالرز ان کی نگرانی میں ریسرچ کرکے ڈاکٹر بن گئے جبکہ 3 اردو اسکالرز ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ جن اہم موضوعات پر ان کی نگرانی میں ریسرچ کا کام جاری ہے وہ ہیں۔ 'اردو میں منظر نگاری کی روایت'، 'اردو کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا کا رول' اور 'اردو شاعری میں سہل ممتنع کی روایت' ریسرچ کے ان موضوعات سے ناشر نقوی کی فکری بصیرت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ امرتسر کی گرو نانک دیو یونیورسٹی کے اردو اسکالر رضوان الزماں نے ناشر نقوی کی شخصیت اور ادبی خدمات کے عنوان پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ ہندستان کی 9 اور پاکستان کی 3 یونیورسٹیوں کے اسکالرز کی اردو اور پنجابی ادب کے حوالے سے ساٹھ  Thesis کی تقویم کا کام بھی ناشر نقوی انجام دے چکے ہیں۔ ان کے قلم کی جنبش سےمختلف موضوعات پر سیکڑوں مقالے اور ریسرچ پیپرز قرطاس پر بکھر چکے ہیں۔

ناشر نقوی کی اب تک 28 تخلیقات منظر عام پر آچکی ہیں جن میں 18 ان کی طبع زاد تخلیقات ہیں اور 10 کتابوں کے وہ مرتب ہیں، جہاں تک ان کی شاعرانہ صلاحیتوں اور فکری جولانیوں کا تعلق ہے اس میں ان کے خاندانی پس منظر اورعلم و ادب کی قدآور شخصیات کی سرپرستی کا بہت اہم رول ہے۔ انیس العصر مہدی نظمی، پروفیسر مونس رضا اور راہی معصوم رضا جیسی شخصیتوں کی صحبت نے ناشر نقوی کی فکر اور بصیرت کو وہ نہج عطا کی کہ آج وہ جدید مرثیہ کی ایک پر اثر آواز کے طور پر شناخت رکھتے ہیں۔ وہ اب تک 15 مراثی نظم کرچکے ہیں۔ 300 سے زیادہ غزلیں، درجنوں قطعات اور متعدد نظمیں اور نغمے ان کا شعری سرمایہ ہیں۔ ناشر نقوی کے تخیل کی پرواز کا سلسلہ جاری ہے۔ تشنگی کے عنوان سے ان کا مسدس 1980 میں شائع ہوا تھا وہ منظر عام پر آنے والی ان کی پہلی تخلیق تھی۔ جدید مرثیہ ''آفاقیت'' سلاموں کا مجموعہ 'وسیلہ'، مراثی کا مجموعہ ''لالہ زار صبح''، مراثی کا مجموعہ 'دیدہ وری' غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ''انگنائی''۔ مدحیہ شاعری کا مجموعہ 'برج شرف، عاشقان اہل بیت کی داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔


ناشر نقوی نظم کے ساتھ ساتھ میدان نثر کے بھی شہسوار ہیں۔ تحقیق اور تصوف پر ان کی متعدد تخلیقات نثر نگاری پر ان کی قلمی قدرت کا ثبوت ہیں۔ اردو، پنجابی اور سکھ شعرا، پنجاب اور اردو افسانہ، صدائے صوفی، ناشر نقوی کی تحقیقی اور تنقیدی بصیرت کا نمونہ ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ، ادبی جائزے، کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ انقلابی لہجہ کے شاعر فیض احمد فیض کے پنجابی کلام کو منظر عام پر لانے کا سہرہ بھی ناشر نقوی کے سر ہے۔ کلیات فیض کو انہوں نے گرمکھی میں بھی ترتیب دیا ہے۔ کتاب سمانہ اور شہزادہ امام، ان کی مذہبی تحقیقی کاوش کا تیجہ ہے، حضرت شاہ ولایت، حیات اور حالات، لکھ کر ناشر نقوی نے اپنے جد اعلیٰ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ امروہہ کی عالمی شخصیات، نامی کتاب کے ذریعے انہوں نے اپنے وطن کی دس نامور شخصیات سے دنیا کو روشناس کرایا ہے۔ جن کتابوں کو ناشر نقوی نے مرتب کیا ہے ان میں 'تحریک آزادی میں اردو کا حصہ' حالی اور سر زمین حالی، مہدی نظمی فن اور شخصیت، ادبستان پنجاب، صوفیانہ ادبی روایت، شہیدان وفا، ستنام سنگھ خمار کی شاعری اور ساغر خیامی خاص ہیں۔ ناشر نقوی کا تحقیق اور جستجو کے میدان میں ایک بڑا کارنامہ پیغمبر اکرمؐ کے آٹھویں جانشین امام رضاؑ کے ایک فرزند کا ایک ہزار سال قدیم مزار تلاش کرنا ہے۔ ان کی کوششوں سے پنجاب حکومت نے سمانہ کے مقام پر اس امام زادے کے روضے کی تعمیر اور تزئین کا کام انجام دیا۔

ناشر نقوی کی خدمات اور سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع رہا ہے۔ وہ پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کے بابا فرید سینٹر فار صوفی اسٹیڈیز کے ڈائریکٹر رہے۔ پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کی سینیٹ اور سنڈیکیٹ کے ممبر رہے۔ پنجاب اردو اکیڈمی مالیر کوٹلہ کے سکریٹری رہے۔ ناشر نقوی نے کئی جریدوں کی ادارت بھی کی ہے۔ ہریانہ اردو اکیڈمی کی سکریٹری شپ کے دوران ان کی ادارت میں ماہنامہ خبر نامہ اور ادبی میگزین، جمنا تٹ کی اشاعت شروع ہوئی۔ وہ صوفی فاؤنڈیشن کے ترجمان صدائے صوفی کے بھی ایڈیٹر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ناشر نقوی بہت فعال ہیں۔ وہ پنجاب حکومت کی ایوارڈ کمیٹی کے ایکزیکیٹو ممبر ہیں۔ کونسل برائے فروغ اردو زبان این سی پی یو ایل کی گرانٹ اینڈ ایڈ کمیٹی کے ممبر ہیں۔ صوفی فاؤنڈیشن انٹر نیشنل چنڈی گڑھ کے ایکزیکیٹو ممبر ہیں۔


ناشر نقوی کی ادبی خدمات کا سرکاری اور غیر سرکاری سطح پراعتراف کیا جا چکا ہے۔ پنجاب حکومت نے انہیں ریاست کے اعلیٰ ترین، شرومنی اردو ساہتیہ کار ایوارڈ، سے نوازہ۔ ہریانہ حکومت نے اپنے اعلیٰ اعزاز سے نوازہ جبکہ ایران کلچرل ہاؤس نے انہیں انٹر نیشنل مرثیہ نگاری ایوارڈ سے سرفراز کیا۔ کراچی پاکستان کی ریحان اکیڈمی نے مولا علی ایوارڈ دیکر ان کی مدحیہ شاعری کی پذیرائی کی۔ ان کی ادبی خدمات کا اعتراف دہلی اردو اکیڈمی بھی انہیں ایوارڈ سے نواز چکی ہے۔ حکومت پپجاب کے محکمہ لسانیات کے ذریعے جاری جریدے۔ پرواز ادب، نے ناشر نقوی کی شخصیت اور ادبی خدمات پر ایک خصوصی شمارہ شائع کیا۔ ناشر نقوی اس وقت بین الاقوامی پلیٹ فارم پر امروہہ کی نمائندگی کرنے والوں میں ایک نمایاں نام ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔