یوپی انتخاب: چوتھے مرحلہ میں کل 60 سیٹوں پر ووٹنگ، بی جے پی کا وقار داؤ پر

اگر 2017 کے نتائج کی بات کریں تو چوتھے مرحلہ کی 60 میں سے 51 سیٹیں بی جے پی نے جیتی تھیں اور ایک سیٹ اس کی اتحادی پارٹی کو ملی تھی، سماجوادی پارٹی کے حصے میں 4 سیٹیں آئی تھیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

اتر پردیش اسمبلی انتخاب کے چوتھے مرحلہ میں کل یعنی 23 فروری کو 9 اضلاع کی 60 اسمبلی سیٹوں پر ووٹنگ ہے۔ اس مرحلہ میں یوگی حکومت کے کئی وزراء کے ساتھ ہی سبھی پارٹیوں سے کئی بڑے چہرے بھی میدان میں ہیں۔ اگر 2017 کے نتائج کی بات کریں تو چوتھے مرحلہ کی 60 میں سے 51 سیٹیں بی جے پی نے جیتی تھیں اور ایک سیٹ اس کی اتحادی پارٹی کو ملی تھی، سماجوادی پارٹی کے حصے میں 4 سیٹیں آئی تھیں۔ لیکن اس بار بی جے پی کے سامنے 2017 کے نتائج کو دہرانے کا چیلنج ہے۔

اس مرحلہ میں 9 اضلاع پیلی بھیت، لکھیم پور کھیری، سیتا پور، ہردوئی، اناؤ، لکھنؤ، رائے بریلی، باندا، فتح پور کی 60 اسمبلی سیٹوں پر 624 امیدوار کھڑے ہوئے ہیں جن میں خواتین کی تعداد 91 ہے۔ اس مرحلہ میں 2.13 کروڑ ووٹرس اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ ان میں 1.14 کروڑ مرد اور 99.3 لاکھ خاتون ووٹر ہیں۔ جب کہ تھرڈ جنڈر کے 966 ووٹرس ہیں۔


اس مرحلہ میں جن سیٹوں پر ووٹنگ ہونی ہے ان میں پیلی بھیت، برکھیڑا، پورن پور (محفوظ)، بیسل پور، پلیا، نگھاسن، گولہ گوکرناتھ، سری نگر (محفوظ)، دھورہرا، لکھیم پور، کستا (محفوظ)، محمدی مہولی، سیتاپور، ہرگاؤں (محفوظ)، لہرپور، بسواں، سیوتا، محمود آباد، سدھولی (محفوظ)، مشرخ (محفوظ)، سوائج پور، شاہ آباد، سانڈی، بلگرام-ملاواں، ہردوئی، گوپامئو (محفوظ)، سنڈیلا، بالامئو، بانگرمئو، صفی پور (محفوظ)، موہان (محفوظ)، اناؤ، بھگونت نگر، پروا، ملیح آباد (محفوظ)، بخشی کا تالاب، سروجنی نگر، لکھنؤ مغرب، لکھنؤ مشرق، لکھنؤ سنٹرل، لکھنؤ کینٹ، موہن لال گنج (محفوظ)، بچھراواں (محفوظ)، ہرچند پور، رائے بریلی، سرینی، اونچاہار، تندواری، ببیرو، نرینی (محفوظ)، باندا، جہان آباد، بندکی، فتح پور، ایاہ شاہ، حسین گنج اور کھاگا سیٹ شامل ہیں۔

اب بات کریں اس مرحلہ کے اہم چہروں کی تو چوتھے مرحلہ میں یوگی حکومت کے نصف درجن سے زیادہ وزراء سمیت کئی بڑے بی جے پی لیڈروں کی ساکھ داؤ پر ہے۔ وہیں سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کے بھی ہائی پروفائل لیڈروں کا وقار اس مرحلہ میں داؤ پر ہے۔ لکھنؤ مشرق سیٹ سے بی جے پی سے ایک بار پھر آشوتوش ٹنڈن میدان میں ہیں تو سماجوادی پارٹی سے انوراگ بھدوریا اور کانگریس سے طلبا لیڈر رہے منوج تیواری انتخابی میدان میں ہیں۔


اسی طرح لکھنؤ کینٹ سیٹ پر یوگی حکومت کے قدآور وزیر برجیش پاٹھک انتخاب لڑ رہے ہیں۔ یہاں سماجوادی پارٹی نے راجو گاندھی کو تو کانگریس نے سکھ طبقہ سے دلپریت سنگھ وِرک کو میدان میں اتارا ہے۔ جب کہ بی ایس پی سے برہمن کاروباری انل پانڈے ہیں۔ اسی مرحلہ میں لکھنؤ کی سروجنی نگر پر سبھی کی نگاہیں ہیں۔ بی جے پی نے یہاں سے موجودہ رکن اسمبلی سواتی سنگھ کا ٹکٹ کاٹ کر ای ڈی کے جوائنٹ ڈائریکٹر رہے راجیشور سنگھ کو اتارا ہے جن کے سامنے سماجوادی پارٹی نے سابق وزیر ابھشیک مشرا کو اور کانگریس نے رودر دمن سنگھ عرف ببلو سنگھ کو کھڑا کیا ہے۔ بی ایس پی نے یہاں سے جلیس خان کو امیدوار بنایا ہے۔

فتح پور ضلع کی حسین گنج سیٹ سے یوگی حکومت کے ریاستی وزیر رنویندر پرتاپ سنگھ عرف دھنی سنگھ میدان میں ہیں۔ یہاں سے سماجوادی پارٹی نے سابق وزیر منا لال موریہ کی بیوی اوشا موریہ کو تو کانگریس نے شیواکانت تیواری کو میدان میں اتارا ہے۔ فتح پور کی ہی بندکی سیٹ پر اپنا دل (ایس) سے یوگی حکومت میں وزیر جے کمار سنگھ جیکی لڑ رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ فتح پور کی جہان آباد سیٹ سے انتخاب جیتے تھے اور انھیں یوگی حکومت میں وزیر بنایا گیا تھا۔ لیکن اس بار ان کی سیٹ بدل دی گئی ہے۔


چوتھے مرحلہ میں کانگریس کے قلعہ رائے بریلی کی پانچوں سیٹوں پر ووٹنگ ہے۔ اس میں سب کی نگاہیں رائے بریلی صدر سے کانگریس کی باغی ادیتی سنگھ پر مرکوز ہیں جو بی جے پی سے انتخاب لڑ رہی ہیں۔ ادیتی کے سامنے کانگریس کے منیش سنگھ چوہان ہیں، تو سماجوادی پارٹی نے آر پی یادو کو ٹکٹ دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی اونچاہار سیٹ پر بھی سب کی نگاہیں ہوں گی جہاں سے سماجوادی پارٹی کے منوج پانڈے ہیٹرک لگانے کی کوشش میں ہیں۔ بی جے پی نے یہاں امرپال موریہ کو اتارا ہے۔ کانگریس نے بی جے پی کے باغی اتل سنگھ کو اتارا ہے۔ اس کے علاوہ اس مرحلہ میں ہردوئی صدر سے بی جے پی نے نریش اگروال کے بیٹے نتن اگروال کو اتارا ہے۔

مجموعی طور پر ایک بات طے ہے کہ گزشتہ بار 60 سیٹوں میں اتحاد سمیت 52 سیٹیں جیتنے والی بی جے پی کے لیے اس بار پرانی کارکردگی کو دہرانا مشکل ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ چوتھے مرحلہ میں ہی کسانوں کے قتل سے گرمائے لکھیم پور کھیری، پیلی بھیت سمیت دلت لڑکی سے عصمت دری اور قتل کے بعد سرخیوں میں آئے اناؤ میں بھی انتخاب ہونا ہے۔ چوتھے مرحلہ میں آوارہ مویشیوں کی وجہ سے ہو رہی پریشانی کا ایشو بھی گرم ہے۔ ایسے میں نقصان بڑا ہوا تو بی جے پی آگے اس کا ازالہ شاید ہی کر پائے۔ اس لیے چوتھا مرحلہ ایک طرح سے بی جے پی کے لیے ’کرو یا مرو‘ والا مرحلہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 Feb 2022, 11:11 PM