مرکزی وزیر تومر کے بیٹے کی ویڈیو نے مدھیہ پردیش میں بڑھائی سیاسی ہلچل

سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ سوشل میڈیا پر مرکزی وزیر تومر کے بیٹے سے منسلک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مرکزی وزیر کے ساتھ بی جے پی کی بھی مصیبت بڑھی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>مرکزی وزیر  نریندر تومر/ آئی اے این ایس</p></div>

مرکزی وزیر نریندر تومر/ آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

مدھیہ پردیش میں اسمبلی انتخاب سے ٹھیک پہلے وائرل ہوئی تین ویڈیوز نے ریاست کی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد کانگریس جہاں بی جے پی پر حملہ آور ہے اور مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر کا استعفیٰ مانگ رہی ہے، وہیں بی جے پی تومر کے دفاع میں کھڑی ہے۔

ریاست میں گزشتہ تقریباً ایک ہفتہ کے دوران سوشل میڈیا پر تین ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں۔ ان ویڈیوز کو کانگریس کی طرف سے ایشو بنایا گیا ہے اور اسے سوشل میڈیا پر شیئر بھی کیا گیا ہے۔ یہ ویڈیوز مرکزی وزیر نریندر تومر کے بیٹے دیویندر پرتاپ سنگھ سے جڑی ہوئی ہیں۔ دو ایسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں مبینہ طور پر دیویندر پرتاپ سنگھ کسی دیگر شخص سے کروڑوں روپے کے لین دین کی بات کر رہے ہیں۔ تیسری ویڈیو جگمگ دیپ کی آئی ہے جو پچھلی وائرل ویڈیوز میں دیویندر پرتاپ سے بات کر رہے ہیں۔ جگمگ دیپ کے بیان کی بنیاد پر کانگریس کی طرف سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ 200-100 کروڑ روپے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ 10 ہزار کروڑ روپے تک کا معاملہ ہے۔


لگاتار سامنے آ رہیں ان ویڈیوز نے انتخاب کے لیے ایک نیا ایشو دے دیا ہے۔ کانگریس اس ایشو کو خوب اٹھا رہی ہے۔ راہل گاندھی، پرینکا گاندھی سے لے کر ریاستی صدر کمل ناتھ تک بی جے پی پر ان ویڈیوز کو لے کر حملہ آور ہیں۔ کانگریس کی طرف سے سوال اٹھائے گئے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے جو ویڈیوز سامنے آنے کے باوجود ای ڈی، آئی ٹی اور سی بی آئی خاموش بیٹھے ہیں۔

نریندر سنگھ تومر نے اس پورے معاملے کو سازش قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس معاملے میں بیٹے نے ان سے شکایت کی ہے اور جانچ کے لیے درخواست بھی دی ہے۔ حالانکہ سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ سوشل میڈیا پر مرکزی وزیر کے بیٹے سے منسلک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مرکزی وزیر کے ساتھ بی جے پی کی بھی مصیبت بڑھی ہے۔ یہ معاملہ عوام کے درمیان بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ انتخاب پر اس کا کیا اثر پڑے گا، یہ تو فی الحال نہیں کہا جا سکتا، لیکن مرکزی وزیر بحث میں ضرور آ گئے ہیں اور ان کی شبیہ پر منفی اثر پڑنا بھی طے ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔