یو سی سی تنازعہ: شمال مشرق کے قبائل میں خوف طاری، بی جے پی کے اتحادیوں نے بھی اٹھائی آواز

بی جے پی کے اتحادی بھی شمال مشرق میں یکساں سول کوڈ کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ نے بھی شمال مشرق کی ثقافت کو برقرار رکھنے کی وکالت کی تھی

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کی وکالت کرتے ہوئے ملک میں ایک زبردست بحث چھیڑ دی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پی ایم مودی نے یو سی سی کے لیے پچ تیار کر لی ہے اور اس سے متعلق بل 20 جولائی سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں میز پر لایا جا سکتا ہے۔ یونیفارم سول کوڈ کا مسئلہ شروع سے ہی بی جے پی کے بنیادی ایجنڈے میں رہا ہے اور اسے مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں سے جوڑا جا رہا ہے لیکن ایسے متعدد طبقات ہیں جو یو سی سی نہیں چاہتے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں یو سی سی کے خلاف زبردست تحریک چل رہی ہے۔

شمال مشرق میں یو سی سی کے خلاف نہ صرف مخالفین بلکہ بی جے پی کے حلیف بھی آواز اٹھا رہے ہیں۔ 30 جون کو میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ اور شمال مشرق میں بی جے پی کی اہم اتحادی نیشنل پیپلز پارٹی کے رہنما کونراڈ سنگما نے یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ہندوستان کے حقیقی تصور کے خلاف قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان ایک متنوع ملک ہے اور تنوع ہماری طاقت ہے۔ ایک سیاسی جماعت کے طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ پورے شمال مشرق کی ایک منفرد ثقافت ہے اور ہم چاہیں گے کہ اسے محفوظ رکھا جائے۔


ملک کی شمال مشرقی ریاستوں میں 220 سے زیادہ مختلف نسلی گروہ رہتے ہیں اور اسے دنیا کے ثقافتی لحاظ سے متنوع خطوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شمال مشرق میں قبائلی گروہوں کو آئین ہند کے تحت روایات کے مطابق قوانین کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ڈیموگرافی کو سمجھ لیں۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق میزورم میں قبائلی آبادی 94.4 فیصد ہے، جب کہ ناگالینڈ اور میگھالیہ میں بالترتیب 86.5 اور 86.1 فیصد ہے۔

شمال مشرق کے بڑے قبائلی گروہوں کو اس بات پر تشویش ہے کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے دیرینہ رسوم و رواج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہو گی جنہیں آئین نے تحفظ دیا ہے۔ یو سی سی شمالی ریاستوں بالخصوص میزورم، ناگالینڈ اور میگھالیہ میں وراثت، شادی اور مذہبی آزادی سے متعلق قوانین کو متاثر کر سکتا ہے۔

قبائلی گروہوں میں بہت سے اصول ہیں، جو مختلف ہیں۔ انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق، 2018 کے لاء کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آسام، بہار اور اڈیشہ میں کچھ قبائل کے جانشینی کے لیے اپنے اصول ہیں، جو ان کے طریقوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں آسام کے کھاسی اور جینتیا پہاڑی، کورگ عیسائی، جینتگے کے ساتھ بہار اور اڈیشہ کے منڈا اور اوراں قبائل شامل ہیں۔

شمال مشرق کی کھاسی اور گارو پہاڑیوں میں رہنے والے قبائل اور کیرالہ کے نائر کچھ ایسے گروہ ہیں جو ازدواجی نظام کی پیروی کرتے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ یو سی سی کے نفاذ کی وجہ سے ان پر اکثریت کا پدرانہ نظام مسلط ہو سکتا ہے۔


میزورم کی اسمبلی نے، جوکہ 94.4 فیصد قبائلی آبادی والی ریاست ہے، اس سال فروری میں یکساں سول کوڈ کی مخالفت میں ایک قرارداد منظور کی تھی۔ ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل 371جی میزورم کو خصوصی تحفظ دیتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کا کوئی بھی قانون جو سماجی یا مذہبی طریقوں پر اثر انداز ہوتا ہے، میزو رسم و رواج اور زمین کی ملکیت اور میزا نسلی گروہوں کی منتقلی کا اطلاق اس وقت تک میزورم پر نہیں ہو سکتا جب تک اسے ریاستی اسمبلی سے منظور نہ کیا جائے۔

پی ایم مودی کے یو سی سی کی وکالت کرنے کے بعد جب بی جے پی کے اتحادی نے اس کے خلاف بیان دیا تو وہ میگھالیہ کے سی ایم کونراڈ سنگما تھے۔ کھاسی، جینتیا اور گارو، یہ تین بڑے قبائل میگھالیہ میں رہتے ہیں۔ ان ذاتوں کے گروہوں کے شادی، طلاق اور دیگر معاملات کے لیے علیحدہ قوانین ہیں۔

میگھالیہ اور میزورم کی طرح ناگالینڈ کو بھی یکساں سول کوڈ کے حوالے سے اپنے خدشات ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 371جے کے تحت ریاستوں میں سماجی اور مذہبی رسومات، روایتی قوانین اور زمین کے مالکانہ حقوق سے متعلق تحفظ دیا گیا ہے۔

انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق سکم کے وزیر اعلی کے دفتر نے مطلع کیا ہے کہ پارٹی یونیفارم سول کوڈ پر بیان جاری کرنے سے پہلے ایک میٹنگ کرے گی۔ وہیں، دیگر ریاستیں جیسے اروناچل پردیش، منی پور اور تریپورہ فی الحال مسودہ جاری ہونے کا انتظار کر رہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔