طلاق ثلاثہ بل لوک سبھا میں منظور، ہنگامہ کے بعد اپوزیشن کا واک آؤٹ

بل پر بحث کے دوران ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ خواتین کے نام پر لایا جا رہا یہ بل سماج کو جوڑنے والا نہیں بلکہ توڑنے والا بل ہے، انہوں نے کہا کہ بل اسلام کے خلاف تو ہے ہی مساوی حقوق کے بھی خلاف ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: ترمیم شدہ بل برائے طلاق ثلاثہ کو جس میں کسی مسلمان شوہرکے ایک ہی مرحلے میں بیوی کو تین طلاقیں دینے کو قابل مواخذہ قرار دیا گیا ہے، آج لوک سبھا میں پانچ گھنٹے کی بحث کے بعد منظور کر لیا گیا۔

کانگریس اور آل انڈیا انا ڈی ایم کے نے مخالفت میں جہاں واک آوٹ کیا وہیں تین طلاقیں ایک ساتھ دینے کے معاملہ کو فوجداری قانون کے تحت لانے کی مخالفت کرنے والی پارٹیوں نے کہا کہ اس بل کو پارلیمانی سیلکٹ کمیٹی کے حوالے کیا جائے۔ واضح رہے کہ حکومت کا استدلال یہ تھا کہ سپریم کورٹ نے پچھلے سال اپنے تاریخی فیصلے میں ایک ساتھ تین طلاقیں دینے کو غیر آئینی اور من مانے اقدام پر محمول کیا تھا۔

وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہا کہ اس بل کو سیاسی چشمہ لگا کر نہ دیکھا جائے بلکہ انسانی معاملہ سمجھا جائے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی میناکشی لیکھی نے مودی حکومت کو خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی حکومت قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ پانچ سال کی مدت کار میں خواتین کو با اختیار بنانے اور ان کے مفادات کی حفاظت سے متعلق 50 اسکیمیں لائي ہيں، وہیں کانگریس کی سشمتا دیو نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے بل کی حمایت تو کی، لیکن ساتھ ہی کہا کہ اس بل کو لانے میں حکومت کی نیت صاف نہیں بلکہ ’منہ میں رام ، بغل میں چھری‘ والا معاملہ ہے۔ یہ بل ہندو، پارسی اور عیسائیوں کے قانون کے مشابہ نہيں ہے۔ اس بل میں اب بھی بہت سی خامیاں ہیں، اس لئے اسے مناسب سلیکٹ کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔

کچھ جماعتوں نے بل میں ترامیم کی تجاویز پیش کیں لیکن اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین سمیت دیگر جماعتوں کی طرف سے بل میں ترمیم کے لئے لائی گئی تجاویز کو نامنظور کر دیا گیا۔

تین طلاق پر مبنی بل کے حوالہ سے ایوان میں موجود 256 ارکان پارلیمنٹ میں سے 245 نے اس کے حق میں ووٹنگ کی جبکہ 11 ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔

قبل ازیں تین طلاق بل پر بحث کے دوران ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ خواتین کے نام پر لایا جا رہا یہ بل سماج کو جوڑنے والا نہیں بلکہ سماج کو توڑنے والا بل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے خلاف تو ہے ہی مساوی حقوق کے بھی خلاف ہے۔ کھڑگے نے کہا کہ بل مذہبی آزادی کے خلاف ہے اور آئینی اقدار کے خلاف کوئی حکومت قانون سازی نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ صنفی مساوات کے ہم بھی حامی ہیں لیکن کسی بھی قانون میں طلاق دینے پر شوہر کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ہمیں بل سے نہیں، منہ میں رام بغل میں چھری سے اعتراض، سشمتا دیو

لوک سبھا کی کارروائی ملتوی ہونے کے بعد 2 بجے شروع ہوئی اور تین طلاق پر مبنی بل پر بحث کا آغاز ہوا۔ بحث کے دوران لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ تین طلابق بل ایک اہم بل ہے، حکومت کسی مذہبی معاملہ میں مداخلت کر رہی ہے لہذا اس بل کو جوائنٹ سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجا جانا چاہئے۔ کھڑگے نے کہا کہ بل سے تقریباً 30 کروڑ خواتین متاثر ہوں گی اور ان کی حفاظت ضروری ہے۔

تین طلاق بل پر بحث کے دوران کانگریس کی رکن سشمتا دیو نے کہا، ’’ہمیں بل پر اعتراض نہیں ہے بلکہ منہ میں رام بغل میں چھری سے اعتراض ہے۔ اس بل کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجا جانا چاہئے۔ اسلام کی روایات میں دخل کا حق نہ عدالت کو ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کو۔‘‘

سشمتا دیو نے کہا کہ تین طلاق کے نام پر مسلم خواتین کو قانونی مقدمہ کے علاوہ اور کچھ نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا، ’’شاہ بانو اور شاعرہ بانو کے مقدمات سے ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے۔ تاریخ میں اگر کسی قانون نے مسلم خواتین کو حقوق دئے تو وہ راجیو گاندھی کی حکومت نے 1986 میں دئے تھے۔‘‘

ادھر آر ایس پی رکن پارلیمنٹ این کے پریم چندرن نے بل پر اپنا موقف رکھتے ہوئے بل کی کئی دفعات پر سوال کھڑے کئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بل کے مطابق تین طلاق دینے پر شوہر کے لئے جیل کا التزام ہے، اگر طلاق دینے پر شوہر جیل چلا جائے گا تو پھر متاثرہ خاتون کو معاوضہ کیسے ملے گا۔ کو دیگا پھر معاوضہ، جس کا بل میں التزام کیا گیا ہے۔‘‘

مسلم خواتین کے نام پر گھڑیالی آنسو بہا رہی ہے بی جے پی: محمد سلیم

بحث کے دوران سی پی آئی ایم کے رکن پارلیمنٹ محمد سلیم نے اپنا موقف رکھا۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی مسلم خوتین کے نام پر گھڑیالی آنسو بہا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو مسلم خواتین کو انصاف دلانے سے کوئی مطلب نہیں ہے، بلکہ اس کے ذریعہ وہ مسلم مردوں کو دوئم درجے کا شہری بنانے کی سازش کر رہی ہے۔

رکن پارلیمنٹ محمد سلیم نے مزید کہا، ’’حکومت کا کہنا ہے کہ بل کو ترمیم کے بعد لوک سبھا میں پیش کیا گیا ہے لیکن اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ بل میں جو مجرامانہ التزامات موجود تھے انہیں نہیں ہٹایا گیا ہے۔‘‘ محمد سلیم نے کہا کہ بل میں بہت ساری کمیاں ہیں، لہذا اسے سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجا جانا چاہئے۔

اے آئی اے ڈی ایم کے رکن پارلیمنٹ انور رضا نے کہا کہ بل مسلم پرسنل لا کے خلاف ہے اور آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ادھر ٹی ایم سی کے رکن سدیپ بندھوپادھیائے نے کہ، ’’ہم جنائیت کو فروغ دینے والے اس بل کے خلاف ہیں۔ جب شوہر جیل میں ہوگا تو معاوضہ کون دیگا، جیسا کہ بل میں التزام ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Dec 2018, 7:30 PM