لوک سبھا انتخاب: یہ جمہوریت بنام تاناشاہی کی جنگ ہے... اُتم سین گپتا

سوال اٹھتا ہے کہ عوامی حمایت کا بھروسہ ہے تو پھر برسراقتدار پارٹی اپوزیشن کے خلاف جبریہ کارروائی کیوں کر رہی؟ امت شاہ نے بی جے پی کارکنان سے ’ہر سطح‘ پر اپوزیشن کو لبھانے کے لیے کیوں کہا؟

<div class="paragraphs"><p>راجستھان میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی، تصویر @INCIndia</p></div>

راجستھان میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی، تصویر @INCIndia

user

قومی آوازبیورو

اس عام انتخاب میں جیت حاصل کرنے کو لے کر وزیر اعظم نریندر مودی کتنے پراعتماد ہیں؟ اگر ان کے بیانات، میڈیا رپورٹس اور آئے دن سامنے آنے والے پبلک سروے کی بنیاد پر بات کریں تو جواب ہوگا کہ ’وہ پُراعتماد ہی نہیں بلکہ پوری طرح مطمئن ہیں‘۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟

انتخابی شیڈول کا اعلان ہونے کے پہلے ہی وزیر اعظم نے بڑے ہی صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ لوگوں نے تو انھیں تیسری مرتبہ مینڈیٹ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس مرتبہ بی جے پی 2019 کی 303 سیٹوں کے مقابلے میں 370 لوک سبھا سیٹیں حاصل کرے گی اور این ڈی اے تو 400 سیٹوں کو پار کر جائے گا۔ میڈیا نے بھی بتایا کہ وزیر اعظم نے مرکزی حکومت کے سکریٹریز کو ہدایت دے دی ہے کہ وہ پریزنٹیشن تیار کریں تاکہ ان کی تیسری مدت کار کے پہلے 100 دنوں کے ایجنڈے کو آخری شکل دی جا سکے۔ یکم اپریل کو آر بی آئی کی 90ویں سالگرہ پر افسران اور ملازمین کی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ذرا مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ اگلے 100 دنوں کے لیے آرام کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ انتخابی تشہیر میں مصروف رہیں گے؛ لیکن حلف برداری کے ٹھیک اگلے دن سے ان کے پاس وقت نہیں ہوگا، کیونکہ ان کے پاس بہت سارا کام ہوگا۔ نئی دہلی میں تعینات نوکرشاہوں نے مانا کہ ٹاسک فورس کو ایسے اچھے پروگرام پیش کرنے کو کہا گیا ہے جنھیں اگلی حکومت نافذ کر سکے۔


ایسے زبردست اعتماد اور چاروں طرف فاتحانہ ماحول کے درمیان بھلا کوئی لیڈر ’وِکٹم کارڈ‘ کیوں کھیلنا جاری رکھے گا؟ وزیر اعظم شاید ہی کبھی یہ شکایت کرنے کا موقع چھوڑتے ہیں کہ اپوزیشن ان کے خلاف متحد ہو گیا ہے؛ کہ وہ انھیں کام نہیں کرنے دینے کے لیے پرعزم ہے؛ کہ ان کی حکومت کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں۔

سوال اٹھتا ہے کہ زبردست عوامی حمایت کے تئیں پُراعتماد برسراقتدار پارٹی انتخابات کے درمیان میں اپوزیشن کے خلاف جبریہ کارروائی کیوں کرے گا؟ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے مدھیہ پردیش میں بی جے پی کارکنان سے ’ہر سطح‘ پر اپوزیشن کے لوگوں کو لبھانے کے لیے کیوں کہا؟ بی جے پی نے کانکنی گھوٹالے میں سالوں جیل میں گزارنے والے کاروباری جناردن ریڈی جیسے داغی لیڈران کو کیوں شامل کیا؟ یہ سبھی اشارے تو پُراعتماد ہونے کے نہیں ہیں!


45 سالوں میں سب سے زیادہ نوجوان بے روزگار ہیں اور اس کو چھپانے کی کوششوں کے باوجود شمالی ہند کی ریاستوں میں بے روزگار سڑکوں پر اتر رہے ہیں۔ اگنی ویر منصوبہ سے پیدا ہوئی گڑبڑی سے بخوبی واقف وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے نہ چاہتے ہوئے ہی سہی، یقین دلایا ہے کہ اقتدار میں لوٹنے کے بعد اس منصوبہ کا جائزہ لیا جائے گا۔ لوگوں کا دھیان بھٹکانے کے تمام طریقے کیے گئے، مثلاً پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس، یو پی اے حکومت (2014-2004) کی مدت کار پر وہائٹ پیپر، خاتون ریزرویشن بل اور سی اے اے قانون کو نوٹیفائی کرنا۔ ان سے بی جے پی کی گھبراہٹ کا پتہ چلتا ہے۔

کانگریس لیڈر راہل گاندھی ہلکے طریقے سے بولنے والے شخص نہیں ہیں۔ انھوں نے پورے بھروسہ کے ساتھ کہا ہے کہ بی جے پی حکومت جانے والی ہے۔ کچھ لوگ بے شک ان کا مذاق اڑائیں لیکن بڑی تعداد میں لوگ ان کی باتوں پر سنجیدگی سے توجہ دے رہے ہیں۔ انھوں نے سروس میں لگے نوکرشاہوں کو اصول و ضوابط پر عمل کرنے اور اپوزیشن کے خلاف چنندہ طریقے سے ان کا استعمال کرنے سے بچنے کی بھی سخت تنبیہ کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ انتخاب کے بعد کسی کو بخشا نہیں جائے گا۔


31 مارچ کو رام لیلا میدان میں ’جمہوریت بچاؤ ریلی‘ میں انھوں نے اس بات کو دہرایا کہ ’وہ ای وی ایم اور میچ فکسنگ کے بغیر 180 سے زیادہ سیٹیں نہیں جیت سکتے۔ اگر بی جے پی دھاندلی کر کے انتخاب جیتتی ہے اور پھر آئین کو بدل دیتی ہے تو پورے ملک میں اتھل پتھل مچ جائے گی۔ میری بات یاد رکھیں، ایسی حرکتیں ملک کے وجود کو خطرے میں ڈال دیں گی۔‘ اس سے بی جے پی اتنی پریشان ہو گئی کہ اس نے انتخابی کمیشن میں نمائندہ وفد بھیج کر راہل کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعظم نے بھی ووٹرس سے کانگریس کو مناسب جواب دینے کی اپیل کی۔ اتراکھنڈ میں انھوں نے راہل گاندھی پر بی جے پی کے انتخاب جیتنے کی حالت میں ملک میں آگ لگا دینے کی دھمکی دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’انھیں چن چن کر صاف کر دو، ان کو میدان میں رہنے مت دو‘۔

رام لیلا میدان کی ریلی میں پندرہ دنوں میں دوسری بار ’انڈیا‘کے لیڈران اتحاد کا مظاہرہ کرنے کے لیے ساتھ ساتھ آئے۔ اس سے پہلے یہ لیڈران 17 مارچ کو ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ کے اختتام پر ممبئی کے شیواجی پارک میں اکٹھا ہوئے تھے۔ وہ رام لیلا میدان میں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی ای ڈی کے ذریعہ گرفتاری کی مکالفت کرنے ایک ساتھ آئے۔


سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کو سنیتا کیجریوال کے ساتھ اسٹیج شیئر کرتے دیکھ کر کچھ لوگوں کو ضرور مایوسی ہوئی ہوگی، کیونکہ وہ اروند کیجریوال ہی تھے جنھوں نے کانگریس اور دہلی کی آنجہانی وزیر اعلیٰ شیلا دیکشت پر زوردار حملے کیے تھے۔ حالانکہ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے اور راہل گاندھی اپنے اس رخ پر قائم ہیں کہ یہ انتخاب نہ تو تعداد کی طاقت کے لیے ہے اور نہ ہی کانگریس اور بی جے پی کے درمیان مقابلے کے لیے، بلکہ یہ ملک اور آئین بچانے کا انتخاب ہے۔ اسی اسٹیج سے ڈیرک او برائن نے یہ کہہ کر اسی جذبہ کو ظاہر کیا کہ ’ترنمول کانگریس انڈیا اتحاد کے ساتھ تھی، ہے اور رہے گی‘۔ اپوزیشن کا یہ اتحاد بی جے پی کو پریشان کر رہا ہے۔

بی جے پی نے مہاراشٹر اور بہار میں ’انڈیا‘ اتحاد کو توڑ کر یہ یقینی کیا کہ اپوزیشن ایک رائے ہو کر انتخاب نہ لڑ پائے اور اپوزیشن پارٹی اپنے کارکنان کی طاقت کو مشترکہ طور پر بی جے پی سے مقابلے میں استعمال نہ کر سکیں۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے سابق میڈیا مشیر پنکج پچوری پارٹیوں کی سوشل میڈیا رسائی کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کانگریس اور عآپ کے درمیان بی جے پی شگاف پیدا کرنا کیوں چاہتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بی جے پی کے پاس سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر 13 کروڑ ہندوستانیوں تک پہنچنے صلاحیت ہے۔ عآپ (7 کروڑ) اور کانگریس (5 کروڑ) ملا کر 12 کروڑ لوگوں تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آر جے ڈی، ٹی ایم سی اور ڈی ایم کے جیسی چھوٹی پارٹیوں کی بھی اچھی خاصی رسائی ہے جو ایک ساتھ مل جائیں تو بی جے پی کی رسائی سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔


بی جے پی کی کوشش ہے کہ انتخاب کو اپوزیشن کی بدعنوان جماعت بنام اقتدار کے ’ایماندار اور حب الوطن‘ کے درمیان کا مقابلہ بنا دے۔ کیجریوال کی گرفتاری، اپوزیشن لیڈران پر ای ڈی کی چھاپہ ماری، مہوا موئترا کے خلاف سی بی آئی کا معاملہ اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی طرف سے کانگریس سے لے کر اور جرمانے کی شکل میں 3567 کروڑ روپے کا مطالبہ (جبکہ سیاسی پارٹیوں کو انکم ٹیکس سے چھوٹ ملی ہوئی ہے)، اسی سازش کا حصہ ہے۔

لیکن یہ ترکیب اس لیے کام کرتی نہیں نظر آ رہی ہے کہ بی جے پی خود یکسر مخالف اشارے دے رہی ہے۔ بے شک وزیر اعظم بدعنوانی پر سخت حملہ کرتے ہیں اور اپنی تیسری مدت کار میں بدعنوانی کی نکیل کسنے کی قسمیں کھاتے ہیں، لیکن وہ اپنی ہی پارٹی میں بدعنوان لیڈروں کو شامل کرنے کی بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ایک میڈیا پروگرام میں جب مرکزی وزیر مالیات نرملا سیتارمن سے پوچھا گیا کہ بی جے پی داغی لیڈران کو کیوں شامل کر رہی ہے، تو انھوں نے کہا کہ بی جے پی میں شامل ہونے کے لیے ہر کسی کا استقبال ہے۔ اینکر نے جب پوچھا کہ کیا ان لیڈروں کا بھی استقبال ہے جن کی جانچ سی بی آئی اور ای ڈی کے ذریعہ کی جا رہی ہے؟ تو اس کے جواب میں وہ جھینپ سی گئیں اور ایک مسکان کے ساتھ انھوں نے کہا ’سبھی کا‘ استقبال ہے۔


سپریم کورٹ نے الیکٹورل بانڈ منصوبہ کو غیر آئینی قرار دے کر بی جے پی کے بدعنوان مخالف دعووں کو مزید ایک جھٹکا دیا ہے۔ وی وی پیٹ پرچیوں کی گنتی اور انھیں ای وی ایم کے نمبر سے ملانے کے مطالبہ والی عرضی پر عدالت سے انتخابی کمیشن کو نوٹس ملنا بھی حکومت کو مشکل میں ڈالنے والا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت کا یہ ماننا کہ مارچ میں الیکشن کمشنرز کی تقرری کرتے وقت طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا، نے بھی حکومت کو شرمندگی میں ڈالا ہے۔

اپریل 2024 میں لوگ طنز اور مذاق کرنے والے جس وزیر اعظم کو دیکھ رہے ہیں، وہ جنوری کے وزیر اعظم سے بالکل مختلف ہیں جو ایودھیا میں رام مندر میں پران پرتشٹھا اور چودھری چرن سنگھ و کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن دینے کے اپنے ماسٹر اسٹروک کی وجہ سے غیر مفتوح نظر آ رہے تھے۔ اب وہ تلخ آواز میں بولنے والے، الزام لگانے والے اور نفرت انگیز نظر آ رہے ہیں جو کم از کم اعتماد سے بھرے کسی لیڈر کی خوبی تو نہیں ہی ہو سکتے!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔