’زندہ جمہوریت کے لیے ہوتی ہیں 3 بنیادی شرائط‘، راجیہ سبھا میں اجئے ماکن نے کی چشم کشا تقریر

اجئے ماکن نے کہا کہ 2014 میں بی جے کے بینک اکاؤنٹ میں 295 کروڑ روپے تھے، لیکن 2019 میں یہ پیسے بڑھ کر 3562 کروڑ روپے ہوئے، اور 2024 میں یہ بڑھ کر 10107 کروڑ روپے ہو گئے۔

<div class="paragraphs"><p>راجیہ سبھا میں اپنی بات رکھتے ہوئے اجئے ماکن، ویڈیو گریب</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

کانگریس کے راجیہ سبھا رکن اجئے ماکن نے آج ایوانِ بالا میں زندہ جمہوریت کے لیے 3 بنیادی شرائط پر سیر حاصل گفتگو کی اور بتایا کہ یہ شرائط کیوں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ انھوں نے ’انتخابی اصلاحات‘ پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے ایوان سے خطاب کیا اور کہا کہ ’’کسی بھی زندہ جمہوریت کے لیے 3 بنیادی شرائط ہوتی ہیں۔ 3 کسوٹیوں پر کھرا اترنا پڑتا ہے... لیول پلیئنگ فیلڈ (یکساں مواقع)، شفافیت، کریڈبلٹی (ساکھ)۔‘‘

3 بنیادی شرائط کو سامنے رکھنے کے بعد اجئے ماکن نے تینوں شرائط کی علیحدہ علیحدہ تشریح بھی کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’اگر لیول پلیئنگ فیلڈ (یکساں مواقع) کی بات کریں تو 2004 کے بعد بی جے پی کے بینک اکاؤنٹ میں 88 کروڑ روپے تھے، اور کانگریس کے اکاؤنٹ میں 38 کروڑ روپے تھے۔ 2009 کے بعد بی جے پی کے بینک اکاؤنٹ میں 150 کروڑ روپے آئے اور کانگریس کے بینک اکاؤنٹ کے اندر 221 کروڑ روپے جمع رہے۔‘‘ وہ مزید مطلع کرتے ہیں کہ ’’2014 میں بی جے پی کے بینک اکاؤنٹ میں 295 کروڑ روپے تھے، لیکن 2019 میں یہ پیسے بڑھ کر 3562 کروڑ روپے ہو گئے۔ پھر 2024 آیا اور بی جے پی کے بینک اکاؤنٹ میں پیسہ بڑھ کر 10107 کروڑ روپے ہو گئے۔‘‘


اس تفصیل کے ذریعہ اجئے ماکن نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ بی جے پی کے برسراقتدار ہونے کے بعد اس کے اکاؤنٹ میں پیسے حیرت انگیز طور پر بڑھتے چلے گئے۔ وہ اس سلسلے میں مزید کہتے ہیں کہ ’’بات یہیں ختم نہیں ہوئی، 2024 کے لوک سبھا انتخاب آنے سے قبل کانگریس کے اکاؤنٹس سیز کر دیے گئے۔ ہم نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا، لیکن کوئی سماعت نہیں ہوئی، اور آخر میں بینک اکاؤنٹس سے پیسے نکال لیے گئے۔‘‘ کانگریس رکن پارلیمنٹ نے اپنے بیان سے واضح کیا کہ یہ ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ نہیں ہے، کیونکہ یہ سبھی پارٹیوں کے لیے یکساں ماحول فراہم نہیں کرتا۔

اجئے ماکن نے شفافیت سے متعلق اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’ہریانہ میں انتخابات ہوئے اور ووٹنگ فیصد کے اعداد و شمار بدلتے رہے۔ اس معاملے میں سی سی ٹی وی فوٹیج کو لے کر سوال اٹھے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو فوٹیج جاری کرنے کا حکم دیا۔ لیکن 10 دن کے اندر مرکزی حکومت نے اصول بدل دیا اور کہا کہ اب فوٹیج ہم نہیں دے سکتے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’کرناٹک کے آلند میں بھی ہم نے کچھ ایسا دیکھا، جہاں الیکشن کمیشن نے کوئی مدد نہیں کی اور ووٹ چوری ہوتی رہی۔‘‘


کانگریس رکن پارلیمنٹ نے کریڈبلٹی یعنی ساکھ کو بھی موجودہ حالات میں فکر انگیز قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ساکھ کے معاملے میں الیکشن کمیشن کو اپنی معتبریت بنانی پڑے گی، کیونکہ اگر امپائر ہی ایک ٹیم کی جرسی پہن لے گا تو دوسری ٹیم کیا کرے گی؟ امپائر ہی اگر میچ فکس کر لے گا تو کھلاڑی کیا کرے گا؟‘‘ ان سوالات کو قائم کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ’’یہی نہیں، قانون بدل کر الیکشن کمشنر کو کسی بھی کریمنل یا سول ایکشن سے ٹوٹل امیونٹی (مکمل قوت مدافعت) دے دی گئی۔ چاہے وہ کتنا بھی جانبداری کریں، کوئی ان کے اوپر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ کوئی ان کے اوپر قانونی کارروائی نہیں کر سکتا۔‘‘ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ’’تلنگانہ میں کانگریس حکومت کسانوں کو مدد دینا چاہتی تھی تو الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق کا حوالہ دیا اور مدد نہیں کرنے دی۔ ایسے ہی ہماچل میں بھی کیا گیا۔ لیکن بہار انتخاب کے دوران انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے باوجود این ڈی اے حکومت نے 10 ہزار روپے براہ راست لاکھوں خواتین کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیے۔‘‘ اپنی باتوں کا اختصار پیش کرتے ہوئے اجئے ماکن واضح لفظوں میں کہتے ہیں کہ ’’اپوزیشن کرے تو ’ریوڑی‘ اور انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی، لیکن برسراقتدار طبقہ کرے تو ’عوامی فلاح‘... یہ دوہرا پیمانہ نہیں چلے گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔