اردو زبان آسٹریلیا میں بکھیر رہا اپنا جادو، عالمی ویبینار میں مقررین کا اظہارِ خیال

ریحان علوی نے اپنے طویل دورِ قیام کے بارے میں تفصیلات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ آسٹریلیا میں بڑی مشقت کے بعد اردو زبان وادب کے لیے ایک خوشگوار ماحول قائم ہوا۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

نئی دہلی/ ایڈنبرا: آسٹریلیا میں اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے روشنی ڈالتے ہوئے آسٹریلیا میں رضا شاہد نے کہا کہ آسٹریلیا میں اردو زبان کے پھلنے پھولنے کے وسیع امکانات ہیں، مگر لازم ہے کہ ہم اس طرح صدق دل سے توجہ دیں۔ انہوں نے یہ بات بزم صدف انٹرنیشنل کے آسٹریلیا شاخ کے زیر اہتمام ’آسٹریلیا میں اردو ادب کا عصری منظر نامہ“عنوان سے ایک عالمی ویبنار اور سینار میں یہ بات کہی۔

انہوں نے کہا کہ اردو کے نصابِ تعلیم کو موضوع بناتے ہوئے اس بات پر توجہ دلانے کی کوشش کی کہ کیسے اس برّ اعظم کے تعلیمی اداروں کو ہم اپنی زبان سے جوڑ سکتے ہیں۔ ریحان علوی نے اپنے طویل دورِ قیام کے بارے میں تفصیلات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ آسٹریلیا میں بڑی مشقت کے بعد اردو زبان وادب کے لیے ایک خوشگوار ماحول قائم ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ آسٹریلیائی اقوام جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے، انھیں اردو سے جوڑنا اردو کی اس خطے میں بقا کے لیے لازم ہے۔ انھوں نے اردو بولنے والے گھروں میں مطالعے کا شوق بڑھانے کی ایک خاص بات بھی کہی۔


پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے بزمِ صدف کے چیئرمین شہاب الدین احمد نے عالمی سطح پر اردو کے ادیبوں اور شاعروں کے سامنے در پیش مسائل کا تذکرہ کیا اور اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ دنیا کے مختلف گوشوں کے ادبا و شعرا کے بیچ زندہ رابطے کے لیے بزمِ صدف نے کون سے خواب دیکھے ہیں۔ افتتاح سے پہلے پروگرام کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے تہمینہ راو نے بزمِ صدف کی عالمی سطح پر خدمات کی تفصیل بتائی اور ان امور پر انھوں نے روشنی ڈالی کہ آخر مختلف اداروں کی موجودگی کے باوجود بزمِ صدف جیسی عالمی تنظیم کی ضرورت آسٹریلیا میں کیوں کر ہے؟ انھوں نے اپنے اس ارادے کو بھی ظاہر کیا کہ بزمِ صدف کی آسٹریلیا ٹیم کس طرح بزمِ صدف کی دوسری شاخوں اور مرکزی کمیٹی کے ساتھ مل کو نئے کاموں کی انجام دہی کے لیے پابندِعہد ہے۔

آسٹریلیا میں مقیم افضل رضوی نے اسکول کی سطح پر درس و تدریس کے ماحول کی ضرورت بتائی اور جنوبی آسٹریلیا میں اردو کی خاص طور سے ترویج اشاعت کے مراحل پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے یہ بات بھی گوش گزار کی کہ یہاں کثیر لسانی ماحول ہے اور اس سے اردو والوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انھوں نے بتایا کہ جنوبی آسٹریلیا میں پانچ ایسے تعلیمی ادارے موجود ہیں جہاں اردو کو ایک مضمون کے طور پر پڑھنے کی سہولت حاصل ہے۔ ملبورن میں مقیم مصدق لکھانی نے اپنا ایک شعر پڑھتے ہوئے ترکِ وطن کی تاریخ واضح کرنے کی کوشش کی جس میں انھوں نے یہ مصرعہ پیش کیا: ہم اس دیارِغیر میں اردو بھی لائے ہیں۔ انھوں نے آسٹریلیا کے مختلف علاقوں میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے جو سرگرمیاں ہو رہی ہیں، ان کی وضاحت کی۔ شمیم رضوی، اشرف شاد، رئیس علوی، تہمینہ راو کی ادبی شناخت کا اعتراف کیا۔ انھوں نے اردو انٹرنیشنل اور دوسرے اداروں کی ماہانہ نشستوں کا ذکر کرتے ہوئے آسٹریلیا میں اردو کے ادیبوں اور شاعروں کی ادب کے حوالے سے اہمیت پر روشنی ڈالی۔


اس سیمنار میں ہندوستان سے ڈاکٹر الفیہ نوری نے تہمینہ راو کی نظم نگاری کے حوالے سے اپنا مقالہ پیش کیا، جس میں انھوں نے اردو کی خاتون شاعری کے ایک مختلف رجحان اور اندازِ فکر رکھنے کی وجہ سے تہمینہ راو کی ادبی اہمیت کا اقرار کیا۔ انھوں نے کشور ناہید اور پروین شاکر کے بیچ تہمینہ راو کو ایک امتزاج قرار دیا۔ آسٹریلیا میں مقیم باقر رضا نے اپنی مختصر گفتگو میں گزشتہ عشرے میں آسٹریلیا کے حلقے میں اردو کے سلسلے سے جو قابلِ توجہ سرگرمیاں رہیں، ان کی وضاحت کی۔

بزرگ ادیب، شاعر اور مترجم پروفیسر رئیس علوی نے اپنے گو ناگوں تجربات کی روشنی میں یہ بات کہی کہ اردو کبھی بھی کسی مخصوص خطے کی زبان نہیں رہی۔ اسی سے اردو کا ایک بین الاقوامی اور کثیر تہذیبی مزاج قائم ہوا۔ انھوں نے کہا کہ اردو محبت کرنے والوں کی زبان ہے اور دوستی، محبت، بھائی چارا اور یارانہ سے یہ زبان لوگوں کو گرویدہ بنا لیتی ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ یہ زبان ہند و پاک سے دور کے علاقے میں پھلنے پھولنے کے بڑے امکانات رکھتی ہے۔


مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے بزمِ صدف کے ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری نے کہا کہ ہند و پاک سے باہر جن نئی بستیوں میں اردو زبان کی سر گرمیاں بڑھی ہوئی ہیں، ان میں آسٹریلیا ایک اہم خطہ ارض ہے۔ اسی لیے بزمِ صدف نے اردو کی عالمی برادری سے آسٹریلیا کے ادبا و شعرا کو جوڑنے کا خاکہ تیار کیا۔ انھوں نے خا ص طور سے آسٹریلیا میں لکھے جا رہے اردو کے ادبی سرماے میں جناب اشرف شاد، پروفیسر رئیس علوی اور تہمینہ راو کے کاموں پر اجمالی روشنی ڈالی اور ان کے معیار و مرتبے کے تعین کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنے کے لیے لوگوں میں ترغیب پید اکی۔ انھوں نے اردو کی نئی بستیوں کے علمی کاموں کا دوسری آبادیوں سے تعارف کرائے جانے پر بھی زور دیا۔

سیمنار کی صدارت ممتاز شاعر، افسانہ نگار اور ناول نگار جناب اشرف شاد نے کی۔ انھوں نے تین دہائیوں میں آسٹریلیا میں کس طرح اردو زبان وادب کے حوالے سے ماحول قائم ہوا، اس کی تفصیلات پیش کیں۔ ہند و پاک کے تارکینِ وطن اور دوسرے شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد کو مختلف طرح کی تقریبات سے جوڑنے اور اردوداں آبادی کو ایک پلیٹ فارم پر الگ الگ خطوں میں لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے بزمِ صدف کو مبارک باد دی کہ اس نے عالمی اردو برادری کی پہچان میں آسٹریلیا کو یاد رکھا۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ بزمِ صدف آسٹریلیا کی شاخ کی تشکیل میں ان کا خاص حصہ رہے گا۔ پروگرام کا اختتام کنوینر تہمینہ راو کے شکریہ کے ساتھ ہوا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔