قرآن و حدیث کی تعلیمات مسلمانوں میں سائنسی مزاج کی محرک: پروفیسر سید عبدالرشید

"مسلم سائنسدانوں کی تربیت اور ذہن سازی اس طرح ہوئی تھی کہ وہ جو کچھ ایجادات وانکشافات کرتے تھے ان کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھتے تھے بلکہ افادہ عام کے لئے شائع کر دیتے تھے۔"

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

یو این آئی

حیدر آباد: قرآن اور حدیث کی تعلیمات نے مسلمانوں میں سائنسی مزاج پیدا کیا۔ روم و ایران کے علاقوں میں دیگر قوموں کے ساتھ تہذیبی ملاپ ہوا تو مسلمانوں نے غیر مسلم اقوام سے سائنسی علوم حاصل کیے۔ اس سلسلہ کی پہلی کوشش سب سے پہلے مروان بن حکم کے دور (684-685ء) میں کی گئی اورطب کے موضوع پر پہلی دفعہ ایک کتاب کا ترجمہ کیا گیا۔ اس سلسلہ کی دوسری اہم کوشش حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور میں ملتی ہے، انہوں نے سائنسی علوم کو فروغ دینے کے لئے مدارس قائم کیے، اور مسلمانوں میں عقلی علوم کو فروغ دیا“۔ ان خیالات کا اظہار مولانا سید عبد الرشید (اسسٹنٹ پروفیسر وصدر شعبہ اسلامک اسٹڈیز، عالیہ یونیورسٹی کلکتہ) نے شعبہ اسلامک اسٹڈیز مانو کے تحت ”اسلامی مطالعات فورم“ کے ذریعہ منعقدہ آن لائن پروگرام بعنوان ’’مسلمانوں کے ابتدائی سائنسی کارنامے‘‘ میں کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ”اس سلسلہ کو عباسی دور میں ابو جعفر منصور (م: 775ء) نے مزید ترقی دی اور اس نے ہندوستان، یونان، روم، مصر اور یونان سے سائنسی علوم کے ذخائر منگوائے۔ فلکیات، ریاضیات اور طب کے موضوع پر کتابوں کا ترجمہ کرایا۔ پھر مامون الرشید کے زمانہ میں سائنسی علوم کے ترجمہ کی تحریک نے ترقی کی نئی منزلیں طے کیں۔ اس دور میں ترجمہ کی گئی کتاب کے وزن کے برابر سونا مترجمین کو بطور انعام دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ مامون نے سائنسی علوم کی ترقی کے لئے مختلف تجربہ گاہیں بنوائی تھیں تاکہ کتابوں میں پیش کردہ نظریات کو تجربہ کے ذریعہ پرکھا جائے۔ اس نے دو رصد گاہیں بھی قائم کی تھیں، جہاں سے فلکیاتی مشاہدات کیے جاتے تھے“۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کی ابتدائی سائنسی خدمات، بنیادی مصادر اور نایاب معلومات وغیرہ پر بھی روشنی ڈالی۔


آخر میں صدر شعبہ پروفیسر محمد فہیم اختر نے اپنے صدارتی خطاب میں مقرر کے قیمتی خطاب پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ” آج کے خطاب سے جو چند باتیں ہمارے سامنے نمایاں ہوتی ہیں وہ یہ کہ مسلم سائنسدانوں کی تربیت اور ذہن سازی اس طرح ہوئی تھی کہ وہ جو کچھ ایجادات وانکشافات کرتے تھے ان کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھتے تھے بلکہ افادہ عام کے لئے شائع کر دیتے تھے، ہمیں اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم خود کو دوسروں کے لئے مفید بنائیں، دوسری بات جو اس وقت قابل توجہ ہے وہ یہ کہ مسلمان جو مختلف سائنسی علوم میں ایک وقت دنیا کے امام تسلیم کیے جاتے تھے، وہ آج کیونکر مختلف النوع ٹیکنالوجی کی سہولیات کے باوجود سب سے پیچھے ہو گئے ہیں، اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور وفکر کرنا چاہیے اور جدید وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے علم وتحقیق کے میدان میں آگے آنے کی کوشش کرنی چاہیے“۔ اس سے پہلے اس پروگرام کا آغاز ایم سال دوم کے طالب علم رشید احمد عادل کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، اور ذیشان سارہ (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ) نے نظامت کے فرائض انجام دیئے، انہوں نے موضوع کا تعارف کرانے کے ساتھ مہمان مقرر کا تعارف بھی پیش کیا۔ مقرر کے خطاب کے بعد سوال وجواب کا وقفہ رہا، جس میں شرکاء نے کئی اہم سوالات کیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔