سپریم کورٹ نے 24 ہفتے کی حاملہ غیر شادی شدہ لڑکی کو اسقاط حمل کی دی اجازت

عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ عرضی دہندہ کو صرف اس بنیاد پر فائدہ سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ ایک غیر شادی شدہ خاتون ہے۔

سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ نے 21 جولائی (جمعرات) کو دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ پلٹتے ہوئے اس غیر شادی شدہ لڑکی کو اسقاط حمل کی اجازت دے دی ہے جو کہ 24 ہفتے کی حاملہ ہے۔ اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس سوریہ کانت ترپاٹھی اور جسٹس اے ایس بوپنا کی بنچ نے کہا کہ خاتون کی شادی نہیں ہوئی ہے، اور صرف اس وجہ سے اسے اسقاط حمل کرانے کی اجازت دینے سے نہیں روکا جا سکتا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں غیر شادی شدہ لڑکی کے اسقاط حمل کو لے کر کئی گائیڈلائنس بھی جاری کیے ہیں۔ عدالت نے دہلی ایمس کے ڈائریکٹر کو 22 جولائی تک ایک میڈیکل بورڈ بنانے کی ہدایت دی ہے۔ اگر میڈیکل بورڈ اپنی رپورٹ میں کہے گی کہ غیر شادی شدہ لڑکی کی زندگی کو اسقاط حمل سے کوئی خطرہ نہیں ہے، تو اسقاط حمل کی اجازت دی جا سکتی ہے۔


جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی بنچ نے سماعت کے دوران کہا کہ دہلی ہائی کورٹ نے خاتون کی عبوری راحت کو نامنظور کرتے ہوئے میڈیکل ٹرمنیشن آف پریگننسی رولس کے التزامات کو لے کر روک لگانے میں غلط نظریہ اپنایا تھا۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ عرضی دہندہ کو صرف اس بنیاد پر فائدہ سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ ایک غیر شادی شدہ خاتون ہے۔ بنچ نے سماعت میں یہ بھی کہا کہ 2021 میں ترمیم کے بعد میڈیکل ٹرمنیشن آف پریگننسی ایکٹ میں دفعہ 3 کی وضاحت میں شوہر کی جگہ پارٹنر لفظ کا استعمال کیا جانے لگا ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ قانون کے تحت غیر شادی شدہ خاتون کو احاطہ میں لینے کے قانونی ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔

واضح رہے کہ 15 جولائی کو اس معاملے پر سماعت کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے 25 سال کی غیر شادی شدہ عورت کو اسقاط حمل کی منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہی نہیں، معاملے کی سماعت کے دوران عدالت نے تبصرہ کیا کہ ہم بچے کے قتل کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس کی جگہ اسے چاہیے کہ پیدائش کے بعد بچے کو کسی کو گود دینے کے بارے میں سوچے۔ چیف جسٹس ستیش چندر شرما نے کہا تھا کہ ’’بچوں کو مارنا کیوں چاہتی ہیں؟ ہم آپ کو ایک متبادل دیتے ہیں۔ ملک میں بڑے پیمانے پر گود لینے کے خواہش مند لوگ ہیں۔‘‘ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم خاتون کو بچے کی پرورش کے لیے مجبور نہیں کرتے، لیکن وہ ایک اچھے اسپتال میں جا کر اسے جنم دے سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔