باغیوں کو سبق سکھانے کو بے چین شیوسینک، ادھو ٹھاکرے کی اجازت کا انتظار

جہاں زمینی سطح کے بیشتر شیوسینک ادھو ٹھاکرے کو ہی اپنا لیڈر مانتے ہیں، وہ پارٹی میں شندے گروپ کی بغاوت کے خلاف سڑکوں پر اترنے کو آمادہ ہیں، لیکن پارٹی قیادت سے اجازت نہ ملنے سے ان میں بے چینی ہے۔

علامتی، سوشل میڈیا
علامتی، سوشل میڈیا
user

سجاتا آنندن

مہاراشٹر کی سیاسی حالت ایک طرح سے تذبذب میں لٹکی ہے۔ شیوسینا کے اُدھو ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے، دونوں ہی خیموں کی ایک دوسرے کے اراکین اسمبلی کو نااہل قرار دینے کی عرضی سپریم کورٹ میں ہے اور عدالت نے فی الحال اس پر سماعت ملتوی کر دی ہے۔ ایسے میں دونوں ہی خیموں کے حامیوں اور کارکنان میں ایک بے چینی ہے۔

جہاں زمینی سطح کے بیشتر شیوسینک ادھو ٹھاکرے کو ہی اپنا لیڈر مانتے ہیں، وہ پارٹی میں شندے گروپ کی بغاوت کے خلاف سڑکوں پر اترنے کو آمادہ ہیں، لیکن پارٹی قیادت کی طرف سے اس بارے میں اجازت نہ ملنے سے ان میں بے چینی ہے۔ یہ شیوسینک چاہتے ہیں کہ ادھو ٹھاکرے اپنے والد کے آزمائے ہوئے فارمولوں کی کتاب کا صفحہ کھولیں اور اس پر عمل کریں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ شیوسینک چاہتے ہیں کہ عدالتوں کے ذریعہ امن کی کوششوں کی جگہ سڑکوں پر اترا جائے اور بغیر کسی نتیجے کی پروا کیے تشدد وغیرہ کا سہارا لے کر باغیوں کو سبق سکھایا جائے۔


اُدھر شندے خیمے میں بھی بے چینی ہے۔ انھیں صاف نظر آ رہا ہے کہ ایکناتھ شندے کے وزیر اعلیٰ اور دیویندر فڑنویس کے نائب وزیر اعلیٰ عہدہ کا حلف لینے کے دو ہفتہ بعد بھی وہ صرف حکومت کے ثالث ہی بنے ہوئے ہیں اور کوئی کابینہ بھی نہیں بنی ہے۔ سپریم کورٹ میں سماعت ملتوی ہونے کے بعد اس میں اب اور زیادہ تاخیر صاف ہو گئی ہے۔

اس درمیان ریاست کے حالات بھی بدتر ہیں۔ دو ہفتہ کی موسلادھار بارش سے ریاست کا ایک بڑے حصے میں پانی ہے۔ اس دوران دونوں لیڈروں (وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ) نے سوائے دکھاوٹی سیلاب متاثرہ دورے کے کچھ نہیں کیا ہے، جب کہ کسان فصلوں اور مویشیوں کی بربادی سے پریشان ہے جبکہ نصف شہری علاقوں کا کسان گھروں میں پانی بھرنے سے بے حال ہے۔


اُدھو ٹھاکرے کے حامی بھلے ہی سڑکوں پر اترنے کے لئے اتاؤلے ہیں، لیکن ادھو ٹھاکرے جانتے ہیں کہ ان کے پاس اس وقت وہ سپورٹ سسٹم نہیں ہے جو ان کے والد کو مرکز اور ریاست کی برسراقتدار حکومت یا پارٹی سے ملا کرتا تھا۔ آج مرکز اور ریاست دونوں میں ہی ایسی حکومتیں ہیں جو ان کے خلاف ہیں۔ ایسے میں شیوسینکوں کا سڑکوں پر اترنا نہ صرف سماجی سطح پر بلکہ سیاسی سطح پر بھی نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔ پارٹی میں بحران کے وقت بھی ادھو ٹھاکرے نے جس صبر اور استقلال سے کام لیا ہے، اس سے عام طور پر شیوسینا سے دور رہنے والے ووٹر بھی ادھو کے غیر متشدد رویے کے سبب ان کی حمایت میں آئے ہیں۔ لیکن اگر شیوسینک ہنگامہ کرتے ہیں تو نئے حامی ان سے چھٹک سکتے ہیں۔

شیوسینا کے باغیوں کے لیے یہی فکر کا بڑا سبب بھی ہے کیونکہ آنے والے دنوں (اگست-ستمبر) میں مہاراشٹر میں کئی سطح کے انتخاب ہونے ہیں۔ حیرانی نہیں ہوگی اگر بی جے پی ریاست میں سیلاب کی حالت کے مدنظر ان انتخابات کو ملتوی کرنے کی کوشش کرے، حالانکہ دھیان دلانا ہوگا کہ جب 2019 کے ستمبر-اکتوبر میں اسمبلی انتخاب ہوئے تھے تو ایسے ہی حالات تھے، اور تب نہ ووٹروں کو فرق پڑا تھا اور نہ ہی انتخاب ٹالے گئے تھے۔


سینئر وکیل اُجول نکم کہتے ہیں کہ بھلے ہی دونوں خیموں کے اراکین اسمبلی (جس میں ایکناتھ شندے بھی شامل ہیں) کو نااہل قرار دینے کی عرضیاں سپریم کورٹ میں داخل کر رکھی ہیں، لیکن آئینی طور پر کابینہ توسیع ملتوی کرنے کا یہ کوئی بہانہ نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ آئین کے مطابق باغی خیمے پر قانونی عمل کی اَندیکھی کے سبب نااہل ہونے کا خطرہ زیادہ منڈلا رہا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو شندے کیمپ کے لیے یہ بہت بڑا دھچکا ہوگا۔

اس درمیان جہاں اُدھو ٹھاکرے نے ایک خاص قسم کی خاموشی اوڑھ رکھی ہے، ان کے بے حد نزدیکی اور راجیہ سبھا رکن سنجے راؤت نے فروری 2019 کی ایک ویڈیو کلپ جاری کرنے کی تنبیہ دی ہے جس میں امت شاہ نے صاف طور پر وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آ کر 50-50 فارمولے کے تحت وزیر اعلیٰ ہوگا۔ اگر ایسی کوئی ویڈیو کلپ ہے اور اسے پرائیویٹ کیا جاتا ہے تو یہ بی جے پی کے لیے کافی شرمناک حالت ہوگی اور ادھو ٹھاکرے کے ناقدین کے منھ بند ہو جائیں گے، جن میں ان کے لوگوں کے چہرے بھی لٹک جائیں گے جنھیں لگتا ہے کہ اکتوبر 2019 میں بی جے پی سے آمنے سامنے کی لڑائی لڑنا صحیح فیصلہ نہیں تھا۔


سنجے راؤت کا اعلان بی جے پی کے سابق مہاراشٹر صدر اور اب مودی حکومت میں وزیر راؤ صاحب دانوے کے اس دعوے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ادھو ٹھاکرے اور امت شاہ کے درمیان بند کمرے میں بات چیت ہوئی تھی اور اس میں کوئی دیگر موجود نہیں تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ امت شاہ نے انھیں بتایا تھا کہ ادھو نے وزیر اعلیٰ کا ایشو اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ پرمود مہاجن-بال ٹھاکرے کا فارمولہ اپنایا جائے گا، یعنی جس پارٹی کو زیادہ سیٹیں ملیں گی، اسی پارٹی کا وزیر اعلیٰ ہوگا۔ ویسے اس بات کو لے کر اندیشہ تو ہے ہی کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ۔ اگر راؤت کی ویڈیو کلپ سامنے آتی ہے تو ریاست میں ایک بار پھر نئے سرے سے سیاسی فارمولہ بن سکتا ہے۔

اس درمیان ماہرین آئین الہاس باپٹ کا ماننا ہے کہ کابینہ کی توسیع نہ کرنا ایک طرح سے سمجھداری ہے کیونکہ دَل بدل مخالف قانون کے تحت ان کے اراکین اسمبلی اور وہ خود ہی نااہل قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں سوائے موجودہ حکومت کو برخاست کر نئے سرے سے انتخاب کرانے کے کوئی دوسرا متبادل نہیں ہوگا۔ انتخاب سر پر ہیں اور ادھو کے لیے بڑھتی ہمدردی باغی خیمے کی بے چینی دوگنی کر رہی ہے۔ اس لیے دونوں ہی خیمے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک اتاؤلے ہو اٹھے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔