دارالعلوم دیوبند میں باشندگان دیوبند کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ دراز، سنجیدہ افراد کے وفد کی مجلس شوریٰ سے ملاقات

چند سنجیدہ افراد کے وفد نے مجلس شوریٰ کے ارکان سے ملاقات کی اور ایک تحریری شکایت پیش کی جس میں لکھا کہ باشندگان دیوبند کے ساتھ زیادتی پر ہم خاموش رہے لیکن اب بات حد سے تجاوز کر چکی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>دارالعلوم دیوبند، تصویر آئی اے این ایس </p></div>

دارالعلوم دیوبند، تصویر آئی اے این ایس

user

عارف عثمانی

دیوبند: دارالعلوم انتظامیہ اور باشندگان دیوبند کے درمیان تلخیاں دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہیں۔ دارالعلوم دیوبند میں باشندگان دیوبند کے ساتھ بے شمار زیادتیوں کا سلسلہ دراز ہو گیا ہے۔ اس تعلق سے دیوبند کے چند سنجیدہ افراد کے وفد نے دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے ارکان سے ملاقات کی۔ ادارہ اور بستی کے باشندوں کے درمیان بڑھ رہی دوریوں کو لے کر ایک تحریر وفد نے اراکین شوری کے سپرد کی۔ اس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ دارالعلوم دیوبند میں باشندگان دیوبند کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ دراز ہونے پر ہم خاموش رہے، لیکن اب یہ بات حد سے تجاوز کر چکی ہے۔ خدا نہ کرے، لیکن ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ دارالعلوم دیوبند میں استبدادی نظام حکومت جڑیں پکڑنے لگا ہے۔ یہ مسئلہ باشندگان دیوبند کے ساتھ زیادتی و ناانصافی تک محدود نہیں رہا بلکہ دارالعلوم دیوبند کی عظمت پر بھی اب حرف آنے لگا ہے۔ اس لیے اب ہم باشندگان دیوبند مجبور ہو کر آپ حضرات کے سامنے اپنی معروضات رکھنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

باشندگان دیوبند کے وفد نے پہلے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی سے ملاقات کر کے اراکین شوریٰ سے وقت لینے کی بات کہی تھی جس پر مفتی ابوالقاسم نعمانی نے شوریٰ کے چند ارکان سے ملاقات کے لئے وقت دلایا، لیکن وفد میں محدود افراد کو لانے کی بات کہی۔ وفد نے دارالعلوم دیوبند کے مہمان خانہ میں پہنچ کر صدرالمدرسین مولانا سید ارشد مدنی رکن شوریٰ، مولانا انوارالرحمن، مفتی ابوالقاسم نعمانی سے تفصیلی گفتگو کی اور تحریری طور پر چند شکایات ان کے سپرد کیں۔


تحریر میں سب سے پہلے کہا گیا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے درجہ عربی کی تمام درسگاہوں کو دیوبند کے اساتذہ سے قطعی طور پر پاک کر دیا گیا، تدریسی پیشے کے شرائط و ضوابط ایسے ترتیب دیے گئے کہ دیوبند کا کوئی بھی قابل سے قابل فرد بھی شعبہ تدریس میں شامل نہ ہو سکے۔ حد تو یہ ہے کہ دیوبند کے کسی بھی عالم دین کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ اس کی درخواست پر ہی غور کر لیا جائے اور کم از کم انٹرویو کا حقدار مان لیا جائے۔ دوسری بات دارالعلوم دیوبند میں دفتر داران اور دربانوں کی حیثیت سے کام کرنے والوں میں باشندگان دیوبند کی خاصی تعداد ہے۔ ارباب اہتمام نے جب اس حقیقت کو دیکھا تو یہ امر بھی ان کے لیے ناقابل برداشت ہو گیا۔ چنانچہ ارباب حل وعقد نے ایک پینترا بدلا اور انتظامی و مالی دشواریوں کا ناجائز بہانہ بنا کر مجلس شوریٰ سے یہ تجویز پاس کرائی کہ دربان اور دفترداران بغیر تقرر (غیر مستقل اجیر کے طور پر) بلاکسی اضافی مراعات اور معمولی اجارے پر کام کریں گے۔ بے روزگار، غریب و نادار اور فاقہ زدہ شخص کر بھی کیا سکتا ہے۔ چوتھے درجہ کے ملازمین اس جابرانہ فرمان کے مطابق کام کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ تجویز صرف اس لیے منظور کی گئی تھی کہ دیوبند کے شہریوں کا ذہنی و مالی استحصال کیا جا سکے۔

پیش کردہ تحریری شکایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک امتیازی رویہ دیوبند کے دربانوں کے ساتھ یہ بھی ہے کہ ان کو بمشکل تمام 9 یا 10 ہزار روپے کی اجرت دی جاتی ہے، جبکہ ان کی جگہ جو گارڈس رکھے گئے ہیں ان کو 16 ہزار روپے کی تنخواہ کے ساتھ قیام و طعام کی سہولت بھی دی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس دیوبند کے دربانوں کو اتنی مراعات بھی نہیں دی جاتی کہ وہ قیمتاً گندم ہی حاصل کر سکیں۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند ہزاروں کوئنٹل گندم ہر سال بازار میں فروخت کرتا ہے، لیکن یہی بازار میں فروخت ہونے والا گندم اگر دیوبند کے دربان اور دفترداران خریدنا چاہیں تو انتظامیہ میں اتنی بھی وسعت قلبی نہیں کہ ان غریبوں کو سہارا لگانے کے لیے انہیں قیمتاً گندم ہی دے دیں۔ دیوبند کے ان دربانوں کی جگہ گارڈس رکھے جا رہے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند انتظامیہ کی سنگ دلی کا حال یہ ہے کہ ان دربانوں کو نہ تقرری کا حق حاصل ہے اور نہ رخصت جیسی کوئی سہولت ان کو میسر ہے۔ بظاہر یہ عمل نہایت سنگ دلانہ اور غیر انسانی نظر آتا ہے جو دارالعلوم کے شایان شان نہیں ہے۔


دارالعلوم کے ارکان شوریٰ کو دی گئی تحریر میں ادارہ کے شعبہ جات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ادارہ میں کل 34 شعبہ جات ہیں۔ ان میں سے صرف 4 شعبے ایسے ہیں جن میں نگراں کے طور پر دیوبند کے باشندے کام کر رہے ہیں۔ ان میں محاسبی، مطبخ، مکتبہ، برقیات، ان کے علاوہ 30 شعبہ جات کو باشندگان دیوبند سے محفوظ یا محروم رکھا گیا ہے۔ دیوبند کے تعلیم یافتہ بچوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دیوبند کے تعلیم یافتہ بچوں کے لیے دارالعلوم دیوبند میں ملازمت کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ فضلائے دارالعلوم کو ادارہ کی ملازمت میں ترجیح دی جانی چاہئے لیکن اس کے معنی یہ قطعاً نہیں کہ دوسرے تعلیم یافتہ بچوں کے لیے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے جائیں اور ان کی ملازمتوں کی درخواستوں کو ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے۔

یہ فیصلہ بھی باشندگان دیوبند سے منافرت کی روشن دلیل ہے کہ تدریسی پیشے سے ریٹائرڈ ہونے والے دیوبند کے افراد کو وظیفے کے نام پر تنخواہ کا کچھ فیصد حصہ دیا جاتا ہے، جبکہ غیر دیوبندی ریٹائرڈ اساتذہ کو مکمل تنخواہ دی جا رہی ہے۔ مزید یہ کہ دیوبندی بچوں کے داخلے کے لیے جو استثنیٰ تھا وہ بھی ختم کر دیا گیا۔ تحریر کے آخر میں کہا گیا ہے کہ ہم باشندگان دیوبند نہایت ادب و احترام کے ساتھ آپ حضرات سے التماس کرتے ہیں کہ اپنی ہیئت حاکمہ کی عظمت و رفعت کے پیش نظر باوقار فیصلے کیے جائیں۔ مذکورہ بالا باشندگان دیوبند کے سلسلہ میں جس استحصالی رویوں کی طرف اشارے دیے گئے ہیں اسی شوریٰ میں ان کا تدارک کر دیا جائے۔ ہم باشندگان دیوبند مطالبہ کرتے ہیں کہ (1) مجلس شوریٰ تدریسی شعبہ میں دیوبند کے متمنی اساتذہ کے لیے کوٹہ مختص کیا جائے تاکہ دیوبند کے علماء کو درس و تدریس کا موقع فراہم ہو سکے۔ (2) مجلس شوریٰ اجیر دفترداران اور دربانوں کا باضابطہ تقرر کیا جائے۔ (3) سیکورٹی ایجنسی کے ذریعہ تعینات سیکورٹی گارڈس کو فوری طور پر برطرف کیا جائے اور ان کی جگہ دیوبند کے نوجوان دربانوں کا ایک حفاظتی دستہ بنا کر ان کو معقول تنخواہ پر دارالعلوم میں تعینات کیا جائے۔ 16 ہزار روپے کی تنخواہ اور قیام و طعام کی سہولتوں پر بہت سے نوجوان مل سکتے ہیں۔ (4) مجلس شوریٰ اپنی اس قرارداد کو بھی واپس لے کہ دارالعلوم دیوبند کی ملازمتوں (برائے محررین) میں صرف فضلائے دارالعلوم دیوبند کا ہی انتخاب کیا جائے گا۔ وفد میں انظر صابری، عامر عثمانی، عارف صدیقی، خرم عثمانی اور نجم عثمانی شامل تھے۔ ارکان وفد نے بتایا کہ خوشگوار ماحول میں گفتگو ہوئی، تمام مطالبات ارکان شوریٰ کے سامنے رکھے گئے اور امید ہے کہ ہمارے ان مطالبات پر کچھ نہ کچھ عمل ضرور ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔