وزیر اعظم دفتر اب مشتبہ لوگوں کے قبضہ میں ہے، جو ملک کی سیکورٹی کے لیے خطرناک: کانگریس

پون کھیڑا نے کہا کہ ’’ملک کے وزیر اعظم دفتر میں کیا چل رہا ہے، وزیر اعظم دفتر سے چلنے والے ایپ میں کس کی کتنی حصہ داری ہے، اس ایپ میں کس کی فیملی کے لوگ شامل ہیں... اس کا جلد انکشاف ہوگا۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>پون کھیڑا، ویڈیو گریب</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

’’ہم آج ’جنگل بُک‘ کے ایک کردار کی کہانی بتانے جا رہے ہیں۔ حالانکہ اس جنگل کا راجہ شیر نہیں، بلکہ ’ہرن‘ ہے اور یہ کردار ہرن کا قریبی ہے۔ ہم اتر پردیش میں کیے گئے 112 کروڑ روپے کے گھوٹالہ میں شامل جس کردار کی بات کر رہے ہیں، وہ ملک کے وزیر اعظم اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے لیے بھی بہت محبوب ہے۔ اس کردار کا نام نونیت سہگل ہے۔‘‘ یہ بیان آج کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے ایک پریس کانفرنس میں دیا۔ انھوں نے نونیت سہگل سے متعلق کئی اہم حقائق میڈیا کے سامنے رکھے اور الزام عائد کیا کہ نونیت سہگل اتر پردیش کے اندر ’کرپشن کے کنگ پن‘ (بدعنوانی کے سرغنہ) بن کر کام کر رہے تھے، جس کا انکشاف ایک نیوز پورٹل نے کیا ہے۔

پریس کانفرنس میں کانگریس ترجمان نے واضح لفظوں میں کہا کہ نونیت سہگل کو اتر پردیش سے لا کر ’پرسار بھارتی‘ کا چیئرمین بنایا گیا تھا۔ حالانکہ ان کا حال ہی میں استعفیٰ ہوا ہے اور اب خبر ہے کہ یہ شخص وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کچھ اہم تفصیلات بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’’4 مارچ 2022 کو لکھنؤ کی ایک سڑک پر ٹویوٹا کار میں 41 لاکھ روپے پکڑے گئے۔ اس میں انسٹی ٹیوٹ آف انٹرپرینیورشپ ڈیولپمنٹ (آئی ای ڈی) کے ڈائریکٹر دیویندر پال سنگھ شامل تھے، اور اسی آئی ای ڈی کے چیئرمین نونیت سہگل تھے۔ اس معاملے میں گھر سے بھی 4 کروڑ روپے نقد ملے اور جب انکم ٹیکس نے جانچ شروع کی تو پتہ چلا کہ سرکاری منصوبوں میں ’کٹ کمیشن‘ کا سسٹم چل رہا تھا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’انکم ٹیکس کی رپورٹ کے مطابق 22-2019 کے درمیان اتر پردیش کے کئی منصوبوں میں 112 کروڑ روپے کا نقدی گھوٹالہ ہوا۔ اس میں او ڈی او پی اور ’وشوکرما شرم سمّان‘ جیسے منصوبوں کے ذریعہ آئی ای ڈی سے 65 کروڑ روپے کی لوٹ ہوئی، اور سب سے بڑا حصہ نونیت سہگل کو گیا۔ ٹول کٹ اور ٹریننگ پروگرام کے نام پر یہ رشوت لی گئی تھی، یہ لوگ نقدی کے ذریعہ سے الگ الگ مقامات پر وصولی کرتے تھے۔‘‘


اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پون کھیڑا کہتے ہیں کہ ’’یہی ماڈل یو پی آئی سی او این میں دوہرایا گیا، جہاں 46 کروڑ روپے کا غبن کیا گیا۔ اس میں فرضی بل، شیل کمپنیوں اور ’سب کانٹریکٹنگ‘ کے ذریعہ کھیل کیا گیا۔ 21 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ایک ایسی مشتبہ کمپنی میں ہوئی، جس کے ڈائریکٹر نونیت سہگل کے بیٹے تھے۔‘‘ ان باتوں کو پیش کرنے کے بعد کانگریس لیڈر نے کہا کہ ’’اتنا سب کچھ ہوا، اس کے بعد بھی نونیت سہگل کو ’پرسار بھارتی‘ کا چیئرمین بنایا گیا۔ اگر یہ بات پی ایم مودی جانتے تھے کہ اس طرح کا گھوٹالہ ہوا ہے، پھر بھی چیئرمین بنایا گیا، تو یہ معاملہ مزید سنگین ہو جاتا ہے۔‘‘

انکم ٹیکس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پون کھیڑا نے بتایا کہ ’’دسمبر 2022 میں انکم ٹیکس نے اپنی رپورٹ اتر پردیش حکومت اور لوک آیُکت کو بھیجی۔ لیکن لوک آیُکت نے کہا کہ انھیں یہ رپورٹ ملی ہی نہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ انکم ٹیکس کی 254 صفحات کی یہ رپورٹ کہاں چلی گئی؟‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’بے شرمی دیکھیے کہ جس گھوٹالہ کی جانچ ہونی چاہیے تھی، جسے ریاست میں بدعنوانی کے پھیلاؤ کے لیے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے تھا، اسے ریٹائرمنٹ کے بعد ’پرسار بھارتی‘ کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نونیت سہگل ’ڈبل انجن حکومت‘ کے اہم پسٹن (کارتوس کی ٹوپی) ہیں، جو لکھنؤ اور دہلی دونوں جگہ اہم تھے۔‘‘


اس پورے معاملے میں کانگریس ترجمان نے وزیر اعظم دفتر اور ملک کی سیکورٹی کو لاحق خطرہ کی طرف بھی اشارہ کیا۔ انھوں نے حیرت بھرے انداز میں کہا کہ ’’ملک کے وزیر اعظم دفتر میں کیا چل رہا ہے۔ وزیر اعظم دفتر سے چلنے والے ایپ میں کس کی کتنی حصہ داری ہے، اس ایپ میں کس کی فیملی کے لوگ شامل ہیں، بالی ووڈ اور ملک و بیرون ملک کے کتنے صنعت کار اس میں شامل ہیں... اس کا انکشاف جلد ہوگا۔ ان تمام سوالوں کی کئی کڑیاں یکساں ہیں، اور ان میں نونیت سہگل ایک ہیں۔‘‘ پون کھیڑا واضح لفظوں میں کہتے ہیں کہ ’’جب اس معاملے کی حقیقت سب کے سامنے آئے گی تو لوگ حیران ہو جائیں گے کہ آخر اس ملک کا سب سے بڑا سیاسی دفتر (پی ایم او) مشتبہ لوگوں کے قبضہ میں کیسے آ گیا ہے۔ جو لوگ بیرون ممالک میں ’حوالہ‘ کرتے ہوئے حوالات چلے گئے، وہ بھی پی ایم او کے قریب ہیں اور جلد ہی ہم اس کا انکشاف کریں گے۔‘‘