وقف ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل کی گئی عرضی پر 16 اپریل کو ہوگی سماعت

جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے عدالت کی جانب سے سماعت کی تاریخ مقرر کیے جانے کو ایک حوصلہ افزا پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں کامل یقین ہے اس معاملے میں ہمیں عدالت سے انصاف ملے گا۔‘‘

مولانا سید ارشد مدنی، تصویر آئی اے این ایس
مولانا سید ارشد مدنی، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

مرکزی حکومت کی جانب سے بنائے گئے وقف ترمیمی قانون 2024 کے خلاف جمعیت علماء ہند نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی تھی جس پر 16 اپریل کو سماعت ہوگی۔ پیر (7 اپریل) کو جمعیت علماء ہند کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے معروف سینئر وکیل کپ سبل نے سی جے آئی سنجیو کھنہ سے اس معاملے کی فوری سماعت کی گزارش کی تھی۔ سی جے آئی نے کپل سبل کو یقین دلایا تھا کہ بہت جلد ہی اس کی تاریخ طے کریں گے۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی کو دی گئی جانکاری کے مطابق مولانا ارشد مدنی کی جانب سے داخل کی گئی عرضی پر 16 اپریل کو سماعت ہوگی۔

جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے عدالت کی جانب سے سماعت کی تاریخ مقرر کیے جانے کو ایک حوصلہ افزا پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں کامل یقین ہے اس معاملے میں ہمیں عدالت سے انصاف ملے گا۔ کیونکہ اس قانون کی بہت سی دفعات نہ صرف ملک کے آئین کے خلاف ہیں بلکہ اس سے شہریوں کے بنیادی اور مذہبی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔‘‘ مولانا مدنی کے مطابق اس قانون کی منظوری کے بعد سے ہی ملک کے تمام مسلمانوں میں کافی تشویش، اور غم و غصہ کا ماحول ہے۔ جس طرح اپوزیشن کی تجاویز اور اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے جبراً یہ قانون نافذ کیا گیا ہے اس سے ایک سنگین اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ اب وقف کے املاک کے ساتھ نہ صرف چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے بلکہ اس قانون کی آڑ میں مسلمانوں کو ان کے تاریخی مذہبی ورثے سے بھی محروم کیا جا سکتا ہے۔


مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ نئے قانون کی کچھ دفعات کو پڑھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ یہ قانون نہ تو مسلمانوں کی بھلائی کے لیے ہے اور نہ ہی وقف معاملوں میں شفافیت لانے کے لیے ہے، بلکہ اس کا واحد مقصد ہے وقف کے املاک پر قبضہ کرنا۔ اس سے نہ صرف مسلمانوں کے خلاف ملکی سطح پر تنازعہ کا نیا محاذ کھل جائے گا بلکہ فرقہ پرست طاقتیں اس کا فائدہ اٹھا کر ملک کے امن و اتحاد کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون ایسے وقت میں لایا گیا ہے جب پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آندھی چل رہی ہے۔ ہماری بہت سی مساجد اور درگاہوں کو پہلے ہی نشانہ بنایا جا چکا ہے اور وہاں مندر ہونے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اگر یہ غیر آئینی قانون بھی نافذ ہو جاتا ہے تو ان بے لگام فرقہ پرست طاقتوں کو ہماری مساجد، خانقاہوں، قبرستانوں اور امام باڑوں کو نشانہ بنانے کی قانونی بنیاد مل جائے گی۔

واضح ہو کہ وقف ترمیمی قانون کو صدر جمہوریہ کی منظوری ملنے کے بعد مولانا ارشد مدنی نے سب سے پہلے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی اور فوری سماعت کی اپیل بھی کی تھی۔ مولانا مدنی نے اپنی عرضی میں وقف ترمیمی قانون کو نہ صرف چیلنج کیا ہے بلکہ اس قانون کو نافذ ہونے سے روکنے کے لیے عدالت سے عبوری ہدایت (اسٹے آرڈر) کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جمعیت علماء ہند کی اس عرضی کا ڈائری نمبر 18261/2025 ہے۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وقف ٹریبونل کے فیصلوں کو ختم کرنا اور وقف معاملوں کے لیے غیر واضح اور پیچیدہ طریقۂ کار اپنانا وقف املاک کے تحفظ کو مزید کمزور کرنا ہے۔ جو آئین ہند کے آرٹیکل  14 اور 15 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ عرضی کے آخری حصے میں کہا گیا ہے کہ ان غیر آئینی ترمیمات کی وجہ سے وقف ایکٹ 1955 کی بنیاد کو نقصان پہنچا ہے اور یہ آئین ہند کے آرٹیکل 14، 15، 16، 25، 26 اور 300اے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ علاوہ ازیں یہ ترمیم حکومت کو وقف انتظامیہ پر ضرورت سے زیادہ کنٹرول فراہم کرتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔