ہماچل میں پرانی پنشن اسکیم کانگریس کا سب سے بڑا  انتخابی ہتھیار

اس بار کانگریس نے جس طرح جے رام ٹھاکر حکومت کو گھیرا ہے، اس سے بی جے پی کے تمام چھوٹے بڑے لیڈر دفاع کرتے نظر آ رہے ہیں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آر پی سنگھ

ان دنوں نیشنل ہائی وے 5 سے سولن کی طرف جاتے ہوئے پنجور-پروانو علاقے سے گزریں تو سڑک کے کنارے کھڑے ٹرکوں سے آنے والی بدبو آپ کو کئی کلومیٹر تک پریشان کرے گی۔ یہ ٹرک سیب سے لدے ہوئے ہیں۔ بازار میں فروخت ہونے والے سیب کے علاوہ دیگر فصلیں باغبان سرکاری خریداری کے لیے بھیجتے ہیں۔ خریداری کی ذمہ داری ہماچل پروڈیوس مارکیٹنگ اینڈ پروسیسنگ کارپوریشن (ایچ پی ایم سی) اور ہماچل اسٹیٹ کوآپریٹو مارکیٹنگ اینڈ کنزیومر فیڈریشن (ایچ آئی ایم ایف سی ڈی) کے پاس ہے۔ سیب کی خریداری میں اتنی تاخیر ہوتی ہے کہ ٹرکوں کو کئی کئی دن تک سڑک کے کنارے کھڑا رہنا پڑتا ہے اور وہ گرمی کی وجہ سے سڑنے لگتے ہیں۔

ہماچل جموں و کشمیر کے بعد سیب پیدا کرنے والی دوسری سب سے بڑی ریاست ہے۔ سیب کی مارکیٹنگ میں اڈانی گروپ سمیت مختلف بڑے صنعت کاروں کی شمولیت سے سیب کے کاشتکاروں کو فصل کی کم قیمت ملنا شروع ہو گئی ہے، ان کے ساتھ حکومتی رویہ بھی دن بدن خراب ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے 12 نومبر کو ہونے والے اسمبلی انتخابات میں یہ مسئلہ بڑے پیمانے پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ جس طرح کانگریس نے سیب کے کاشتکاروں کے لیے سیب کی قیمتیں طے کرنے کی ضمانت کا اعلان کیا ہے، اس سے بی جے پی کا پریشان ہونا فطری ہے۔

 سیب کے کاشتکاروں کی 30 تنظیموں پر مشتمل سنیوکت کسان منچ یعنی  مشترکہ کسان منچ کے کنوینر ہریش چوہان کا کہنا ہے  کہ سیب کے باغبان صرف اس پارٹی کی حمایت کریں گے جو کسانوں اور باغبانوں کے 20 نکاتی مطالبات کو تسلیم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ سیب کے لیے کولڈ سٹوریج کی مناسب سہولت نہ ہونے کی وجہ سے سیب کی بڑی مقدار خراب ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے کاشتکار اسے معمولی قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔

ویسے، شملہ کے مال روڈ پر دونوں پارٹیوں کے پوسٹر بینر ریاست میں چل رہی انتخابی لڑائی کے طریقوں میں فرق پر روشنی ڈالتے  ہیں۔ بی جے پی کے پوسٹروں میں کاشی ، ایودھیا سمیت مختلف یاتریوں کی ترقی کے لیے 'ڈبل انجن کی سرکار' اور ان کی ہندوتوا قوم پرستی کے ترانے نظر آئیں گے۔ ان دو چیزوں کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہماچل وزیر اعظم نریندر مودی کی 'کرم بھومی' ہے۔ دوسری طرف کانگریس کے پوسٹروں نے کابینہ کی پہلی ہی میٹنگ میں سرکاری ملازمین کی خالی پڑی 60-70 ہزار آسامیوں کو پر کرنا اور پرانی پنشن اسکیم (او پی ایس) سمیت ایک لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہےخواتین کو 1500 روپے ماہانہ اور 300 یونٹ مفت بجلی دینے کی ضمانت دیں گے۔


جب راجستھان کی اشوک گہلوت حکومت اور بعد میں چھتیس گڑھ کی بھوپیش بگھیل حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے پرانی پنشن اسکیم کو بحال کرنے کا اعلان کیاتب سے ہی بی جے پی اس معاملے میں گھری ہوئی ہے۔ یوپی اور اتراکھنڈ کے انتخابات میں یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح دبایا گیا لیکن ہماچل اور گجرات میں یہ بی جے پی کو پریشان کر رہا ہے۔ اس وقت 90,000 سرکاری ملازمین پرانی پنشن سکیم کا فائدہ حاصل کر رہے ہیں، لیکن 1.5 لاکھ ملازمین ایسے ہیں جو نئی پنشن سکیم کے دائرے میں ہیں۔ او پی ایس کا معاملہ اس قدر گرم ہے کہ اب بی جے پی کی ہر میٹنگ میں کہا جا رہا ہے کہ صرف وہی اسے نافذ کر سکتی ہے۔

بی جے پی حکومت کے خلاف کانگریس کی جانب سے 23 صفحات کی چارج شیٹ بھی جاری کی گئی ہے۔ اس میں وزیر اعلیٰ سمیت کئی وزراء اور محکموں پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اقتدار میں آتے ہی چارج شیٹ میں لکھے گئے معاملات کی ویجیلنس انکوائری کرائی جائے گی۔یہ جاری کرتے ہوئے پارٹی لیڈر پون کھیڑا نے یہاں تک کہا کہ جئے رام ٹھاکر حکومت نے ریاست میں 'لوٹ کی چھوٹ' دی  ہوئی ہے۔

اس قسم کے پروپیگنڈے کے ماحول کو دیکھ کر ماہر سیاسیات پروفیسر۔ موہن جھارٹا  کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں او پی ایس، بے روزگاری، مہنگائی، سیب، بھرتیوں میں بے ضابطگیاں اور اقربا پروری اہم مسائل ہیں۔ ان کو لے کر لوگوں میں غصہ دیکھا جا رہا ہے اور بی جے پی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ شملہ علاقے کے جوگیندر سنگھ کا بھی ماننا ہے کہ ہماچل میں بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور روزگار پیدا کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔دیگر سیاسی ماہرین کا بھی ماننا ہے کہ یہ مسائل ان انتخابات میں بی جے پی کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ پارٹی میں  اقربا پروری  اور بغاوت بھی ان کی جیت کے امکانات کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

بی جے پی کے لیے ایک بڑا مسئلہ باغیوں کی میدان میں موجودگی ہے۔ بغاوت کانگریس میں بھی ہوئی لیکن آخرکار سینئر لیڈروں کی مداخلت کی وجہ سے وہ محدود ہوگئی، لیکن بی جے پی میں اس  کے حالات کچھ بگڑے ہوئے نظرا ٓ رہے ہیں ۔باغیوں نے 21 اسمبلی حلقوں میں بی جے پی امیدواروں کے خلاف پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے۔ بی جے پی کے بڑے لیڈروں کی مداخلت کے بعد صرف 4 باغی ہی راضی ہو سکے جبکہ 17 ابھی تک کھڑے ہیں۔ باغیوں میں سے بہت سے سابق ایم ایل اے اور پارٹی کے اچھے عہدے دار شامل ہیں۔ نالہ گڑھ، اینی، سندر نگر، منڈی، بنجر، دھرم شالہ، بڈسر، فتح پور، کانگڑا، اندورا، بلاس پور صدر، ہمیر پور صدر، کلّو، کنور، ناچن، منالی، چمبہ صدر ایسے علاقے ہیں جہاں باغی بی جے پی  کا حساب  خراب کر سکتے ہیں۔


اصل غصہ یہ ہے کہ بی جے پی نے چار اسمبلی حلقوں میں پارٹی لیڈروں کے خاندان والوں کو میدان میں اتارا ہے۔ بی جے پی نے سابق جل شکتی وزیر کے بیٹے رجت ٹھاکر، وزیر اور ایم ایل اے نریندر براگٹا کے بیٹے چیتن براگٹا، آر ڈی دھیمان کے بیٹے انل دھیمان اور سابق ایم ایل اے بلدیو شرما کی بیوی اور چمبہ کے سابق ایم ایل اے کی بیوی کو بھی ٹکٹ دیا ہے۔پالم پور کے نوجوان پشپندر شرما کا کہنا ہے کہ بی جے پی جو خاندان پرستی کے بڑے بڑے دعوے کرتی تھی لیکن وہ خاندان پرستی کو فروغ دے رہی ہے۔ اس کا اثر انتخابات میں نظر آئے گا۔

یہی نہیں، بی جے پی کے سینئر لیڈر اور وزیر صنعت وکرم ٹھاکر کی پیرول پر چھوڑے گئے متنازعہ بابا اور عصمت دری کے معاملے کے ملزم رام رحیم کے پروگرام میں شرکت کا ویڈیو وائرل ہوا ہے۔ بی جے پی کے لوگوں کو اس بارے میں صفائی دینا  پڑ رہی ہے۔

ویسے تو بھلے ہی کانگریس کی مہم بظاہر بی جے پی سے کم دکھائی دے رہی ہے لیکن جس طرح سے مختلف مسائل پر مختلف واٹس ایپ گروپس میں بحث چل رہی ہے، اس سے بی جے پی کے لیے تشویش بڑھ گئی ہے۔ بی جے پی واٹس ایپ گروپس کے ذریعے بھی جعلی خبریں چلا رہی ہے لیکن اس کا اثر نظر نہیں آرہا ہے۔نوجوان سنجے شرما کا کہنا ہے کہ کانگریس کی مہم بی جے پی کے مقابلے میں کم دیکھی جارہی ہے، لیکن کانگریس کی طرف سے دی گئی ضمانتوں سے ووٹروں، خاص طور پر خواتین، سیب کے باغبانوں اور ملازمین میں ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔