’فلسطین کے مسلمان مظلوم اور قابل رحم‘، مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی کا خطاب

دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیل اور اس کی سرپرست مغربی طاقتیں ظالم اور جابر ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی</p></div>

دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی

user

عارف عثمانی

دیوبند: دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے اپنے ایک خطاب میں فلسطین کے مسلمانوں کو مظلوم، بے بس اور قابل رحم، جبکہ اسرائیل اور اس کی سرپرست مغربی طاقتوں کو ظالم و جابر اور دشمن اسلام قرار دیا، نیز مسجد اقصی کی عظمت و اہمیت پر روشنی ڈالی۔

مولانا ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ فلسطین، مسجد اقصی اور سر زمین قدس کے ساتھ مسلمانوں کا جو ایمانی و جذباتی تعلق ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ اس کو فراموش کر دیا جائے۔ مسجد اقصی کے سلسلہ میں قرآن پاک میں اللہ تعالی نے مستقل آیتیں نازل فرمائی ہیں، مثلاً (ترجمہ) پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے۔


مولانا نعمانی نے کہا کہ اس آیت میں مسجد اقصی کا ذکر ہے نیز مسجد اقصی کے ماحول اور ارد گرد کی زمین کے مبارک ہونے کا تذکرہ بھی ہے۔ آیت کا اصل مقصد تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے سفر اسراء اور سفر معراج کو بیان فرمانا ہے، لیکن اسی کے ضمن میں اگلی آیات کے اندر یہودیوں اور بنی اسرائیل کے عروج و زوال کی داستانیں بھی بیان کی گئیں ہیں۔ مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ ’فلسطین ایک تاریخی مطالعہ‘ کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ مسجد اقصی کے ساتھ کئی اہم واقعات مربوط ہیں۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کی پہلی منزل ہے، معراج کے موقع پر مکہ مکرمہ سے آپ مسجد اقصی تشریف لے گئے پھر وہاں سے آپ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی، واپسی میں بھی آپ مسجد اقصی تشریف لائے پھر وہاں سے مکہ مکرمہ واپس ہوئے۔ مکہ سے مسجد اقصی تک کے سفر کو اسراء اور مسجد اقصی سے آسمانوں تک کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ اسی سفر میں مسلمانوں کو پانچ وقت کی نماز کا تحفہ ملا، اسی سفر سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصی کے پاس تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی امامت فرمائی۔ مسجد اقصی سے تعلق کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ مسلمانوں کا قبلہ اول رہا، ہجرت مدینہ طیبہ کے بعد سولہ یا سترہ مہینے تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصی کی طرف رخ کر کے نماز ادا فرمائی۔ پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد خانۂ کعبہ کی طرف آپ نے رخ فرمایا۔

مولانا نعمانی نے کہا کہ مسجد اقصی اور سر زمین فلسطین متعدد انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی قیام گاہ اور ان کا مدفن ہے۔ وہاں کی مسجد حضرت سلیمان اور حضرت داؤد علیہما السلام کے ذریعہ تعمیر کی گئی ہے۔ پہلی تعمیر تو فرشتوں کے ذریعہ ہوئی، جبکہ دوسری تعمیر حضرت سلیمان اور حضرت داؤد علیہما السلام کے ذریعہ ہوئی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کا جو تعلق سرزمین فلسطین سے، وہاں کے باشندوں سے اور مسجد اقصی سے ہے وہ انتہائی جذباتی قسم کا ہے۔ آج یورپ کی سازش کی بناء پر عین قلب عرب کے اندر جو اسرائیل کی شکل میں خنجر گھونپا گیا ہے، اس کی ٹیس اس وقت سے لے کر آج تک پورا عالم اسلام محسوس کر رہا ہے۔ چونکہ یہ ایک سازشی عمل تھا اس لیے مسلسل ہر مغربی ملک کی جانب سے اس کی پشت پناہی کی جا رہی ہے، اور نام نہاد ملک اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ نہ صرف یہ کہ اپنے قدم آگے بڑھا رہاہے بلکہ فلسطین کے جو اصل باشندے ہیں ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔


مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ اہل فلسطین کی جرأت و عزیمت کو سلام پیش کرنا چاہیے۔ ابھی رمضان المبارک کے اندر جو تازہ حادثات پیش آئے ہیں، کہ عین نماز کے وقت مسجد اقصی کے مصلیوں پر ظلم ڈھایا گیا، انہیں مارا پیٹا گیا اور اس کے بعد ان کی طرف سے جو معمولی سی مزاحمت ہوئی اس کو بہانہ بنا کر غزہ کے علاقے میں بمباری کی گئی جس میں ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے، بچے اور عورتیں تک ماری گئیں لیکن نام نہاد امن پسند دنیا خاموش تماشائی بنی رہی۔ لیکن شاباشی کے قابل ہیں وہ نہتے مجاہدین جنھوں نے اپنی بے سرو سامانی کے باوجود مزاحمت کی، یہاں تک کہ اسرائیل جیسے متکبر اور سرکش ملک کو گھٹنے ٹیکنا پڑے اور وہ جنگ بندی کے لیے مجبور ہوا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ایسی کسمپرسی کے عالم میں ’ہم کیا کریں‘، اور کہا کہ اس وقت ہمارے کرنے کے کئی کام ہیں۔ پہلا کام تو یہ ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان فلسطین کے نہتے مسلمانوں کے ساتھ اپنی ہم آہنگی اور تعاون کا اظہار کریں تاکہ انہیں یہ محسوس ہو کہ اس مسئلہ میں ہم اکیلے نہیں ہیں، بلکہ پورا عالم اسلام ہمارے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا رائے عامہ کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی عادی ہے اس لیے تمام دنیا کے مسلمان اور خاص طور سے برصغیر اور خصوصاً ہندوستان کے مسلمان فلسطین اور اہل فلسطین کی حمایت میں اپنی آواز کو بلند کریں اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کریں۔ وہ مغربی ممالک، وہ اقوام متحدہ، وہ سلامتی کونسل جو اپنے من مانے مقاصد کے لیے خود ساختہ مسائل کے لیے امن و آشتی کا ڈھنڈھورا پیٹتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں وہاں کے لوگوں پر اپنے فیصلے مسلط کر دیتے ہیں۔ ان کی نگاہوں کے سامنے فلسطینی مسلمانوں اور وہاں کے باشندوں پر ظلم ہو رہا ہے، لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ فلسطین اور باشندگان فلسطین کے حق میں اس زور و شور کے ساتھ آواز بلند کی جائے کہ سلامتی کونسل فلسطین کے مسئلے میں حق و انصاف کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو، فلسطینیوں کو ان کا حق دلایا جائے، ان کی جو زمینیں چھین لی گئی ہیں وہ انہیں واپس کی جائیں، نیز اسرائیل اور اس کے آقاؤں کی طرف سے جو اقدامات ہو رہے ہیں ان پر بندش قائم کی جائے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہم سب کے سب مل کر بارگاہ الٰہی میں دعا بھی کریں کہ اللہ تعالی قدس کے باشندوں کی حفاظت فرمائے، انہیں ان کا چھینا ہوا وقار واپس دلائے، مسجد اقصی کو یہودیوں کے نرغے سے نکلنے کے اسباب پیدا فرمائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔