جمعیۃ علماء ہند نے تعلیمی وظائف کی رقم 50 لاکھ روپے سے بڑھا کر ایک کروڑ روپے کی

مولانا ارشد مدنی نے ملک کے موجودہ حالات میں قانون وانتظام کی بد تر صورتحال اور مسلمانوں کی تعلیمی تناسب پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور اس کے لئے وظائف کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی۔

مولانا ارشد مدنی، تصویر یو این آئی
مولانا ارشد مدنی، تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

نئی دہلی: ملک کے موجودہ حالات، قانون وانتظام کی بد تر صورتحال اور مسلمانوں کی تعلیمی حالات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے جمعیۃ کے تعلیمی وظائف کی رقم پچاس لاکھ سے بڑھاکر ایک کروڑ روپے کر دی۔ یہ اعلان انہوں نے جمعیۃ علماء ہند کے مجلس عاملہ کے ایک اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا، جمعیۃ کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق مرکزی مجلس عاملہ نے ریاستی جمعیتوں کی مجلس عاملہ کی سفارشات کی بنیاد پر آئندہ میعاد کی صدارت کے لئے مولانا ارشد مدنی کے نام کا اعلان کر دیا۔

مجلس عاملہ سے خطاب میں مولانا ارشد مدنی نے ملک کے موجودہ حالات میں قانون وانتظام کی بدتر صورتحال اور مسلمانوں کی تعلیمی تناسب پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور اس کے لئے وظائف کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ہماری اس ادنیٰ سی کوشش سے بہت سے ایسے ذہین اور محنتی بچوں کا مستقبل کسی حد تک سنور سکتا ہے، جنہیں اپنی مالی پریشانیوں کی وجہ سے اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔


انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں جس طرح کی مذہبی اور نظریاتی محاذ آرائی اب شروع ہوئی ہے اس کامقابلہ کسی ہتھیار یاٹکنالوجی سے نہیں کیا جاسکتا اس سے مقابلہ کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے مزین کرکے اس لائق بنادیں کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ہتھیار سے اس نظریاتی جنگ میں مخالفین کو شکست سے دو چار کر کے کامیابی اور کامرانی کی وہ منزلیں سرکرلیں، جن تک ہماری رسائی سیاسی طورپر محدود اور مشکل سے مشکل تر بنا دی گئی ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ آزادی کے بعد آنے والی تمام سرکاروں نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے میدان سے باہر کردیا، سچرکمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مسلمان تعلیم میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں، مولانا مدنی نے سوال کیا کہ یہ افسوسناک صورتحال کیوں پیدا ہوئی اور اس کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں؟ اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے خود جان بوجھ کر تعلیم سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی، کیونکہ اگر انہیں تعلیم سے رغبت نہ ہوتی تووہ مدارس کیوں قائم کرتے۔ افسوسناک سچائی یہ ہے کہ آزادی کے بعد اقتدارمیں آنے والی تمام سرکاروں نے مسلمانوں کو تعلیمی پسماندگی کاشکار بنائے رکھا، انہوں نے شاید یہ بات محسوس کرلی تھی کہ اگر مسلمان تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے تو اپنی صلاحیتوں اور لیاقت سے وہ تمام اہم اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوجائیں گے، چنانچہ تمام طرح کے حیلوں اور روکاوٹوں کے ذریعہ مسلمانوں کو تعلیم کے قومی دھارے سے الگ تھلگ کردینے کی کوششیں ہوتی رہیں، جس کے نتیجہ میں مسلمان تعلیم میں دلتوں سے بھی پیچھے ہوگئے۔


مولانا مدنی نے کہا کہ ہم ایک بار پھر اپنی یہ بات دہرانا چاہیں گے کہ مسلمان پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں، اور کار زارحیات میں کامیابی کیلئے ہماری نوجوان نسل تعلیم کو اپنا اصل ہتھیار بنالے۔ ہمیں ایسے اسکولوں اور کالجوں کی اشد ضرورت ہے، جن میں مذہبی شناخت کے ساتھ ہمارے بچے اعلیٰ دنیاوی تعلیم کسی رکاوٹ اور امتیاز کے بغیر حاصل کرسکیں۔ انہوں نے قوم کے بااثرافراد سے یہ اپیل بھی کی کہ جن کو اللہ نے دولت دی ہے وہ ایسے اسکول قائم کریں، جہاں بچے اپنی مذہبی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے آسانی سے اچھی تعلیم حاصل کرسکیں، ہر شہر میں چند مسلمان مل کر کالج قائم کرسکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ جو ہمارے لئے اس وقت انتہائی اہم ہے اس جانب ہندوستانی مسلمان توجہ نہیں دے رہے ہیں، آج مسلمانوں کو دوسری چیزوں پر خرچ کرنے میں تو دلچسپی ہے لیکن تعلیم کی طرف ان کی توجہ نہیں ہے، یہ ہمیں اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ ملک کے موجودہ حالات کا مقابلہ صرف اور صرف تعلیم سے ہی کیا جاسکتا ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند کا دائرہ کار بہت وسیع ہے اور وہ ہر محاذ پر کامیابی سے کام کر رہی ہے، چنانچہ ایک طرف جہاں یہ مکاتیب ومدارس قائم کر رہی ہے وہیں اب اس نے ایسی تعلیم پر بھی زور دینا شروع کر دیا ہے جو روزگار فراہم کرتا ہے، روزگار فراہم کرنے والی تعلیم سے مراد تکنیکی اور مسابقتی تعلیم ہے، تاکہ جو بچے اس طرح کی تعلیم حاصل کرکے باہر نکلیں انہیں فورا روزگار اور ملازمت مل سکے، اور وہ خود کو احساس کمتری سے بھی محفوظ رکھ سکیں۔ تعلیم کے تعلق سے جمعیۃ علماء ہند آزادی کے بعد سے ہی انتہائی حساس رہی ہے چنانچہ اس کے اکابرین نے 1954 میں ایک دینی تعلیمی بورڈ قائم کیا تھا جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں میں تعلیمی بیداری لانا اور ملک کے طول وعرض میں مکاتب و مدارس قائم کرنا تھا چنانچہ یہ جو ہم پورے ملک میں مکاتب و مدارس کا بچھا ہوا جال دیکھ رہے ہیں یہ انہیں کوششوں کا نتیجہ ہے لیکن اب اس سلسلے میں ہمیں نئے سرے سے مہم شروع کرنی ہوگی، اسی لئے اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جمعیۃعلماء ہند اپنے پلیٹ فارم سے مسلمانوں میں تعلیم کو عام کرنے کی غرض سے ملک گیر سطح پر ایک مؤثر مہم شروع کرے گی اور جہاں کہیں بھی ضرورت محسوس ہوئی تعلیمی ادارے بھی قائم کرے گی اور قوم کے تمام ذمہ اداران کو اس طرف راغب کرانے کی ہر ممکن کوشش بھی، اس لئے کہ آج کے حالات میں ہمیں اچھے مدرسوں کی بھی ضرورت ہے اور اچھے اعلیٰ دنیاوی تعلیمی اداروں کی بھی، جن میں قوم کے ان غریب مگر ذہین بچوں کو بھی تعلیم کے یکساں مواقع فراہم ہوسکیں۔ جن کے والدین تعلیم کا خرچ اٹھاپانے سے قاصرہیں، انہوں نے آگے کہا کہ قوموں کی زندگی میں گھر بیٹھے انقلاب نہیں آتے بلکہ اس کے لئے عملی طور پر کوشش کی جاتی ہے اور قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔


جمعیۃ علماء ہند کی توجہ روز اول ہی سے رہی ہے، مکاتب ومدارس کا قیام کے ساتھ ساتھ عصری و ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنے والے غریب اور ضرورتمند طلبہ کے لئے تعلیمی وظائف دینے کا مسلسل کام جاری ہے اور اس کے بہتر نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اس تسلسل کو باقی رکھتے ہوئے اس سال پچاس لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ روپئے کی رقم تعلیمی وظائف کے لئے مختص کی گئی تھی، جس کے لئے پورے ملک سے تقریباً 600 طلبہ منتخب کیے گئے ہیں، جن میں سے اب تک تقریباً 500 طلبہ کو وظیفہ جاری کر دیا گیا ہے، تا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔