فون اور ایپ کے ذریعہ جاسوسی کر رہا چین؟

چین سے آنے والے اسمارٹ فونس اور ان میں انسٹال کیے گئے ایپ ہندوستانی صارفین کی جاسوسی تو نہیں کر رہے، یہ پتہ لگانے کے لیے ہندوستان ایک نیا ضابطہ لانے پر غور کر رہا ہے۔

موبائل، تصویر آئی اے این ایس
موبائل، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

چین کی موبائل کمپنیوں پر سختی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ چین سے آنے والے اسمارٹ فونس اور ان میں انسٹال کیے گئے ایپ ہندوستانی صارفین کی جاسوسی تو نہیں کر رہے ہیں، یہ پتہ لگانے کے لیے ہندوستان ایک نیا ضابطہ لانے پر غور کر رہا ہے۔ اس سے پہلے 2020 میں ہندوستان میں جاسوسی کرنے کے شبہ میں حکومت ہند نے ہندوستان میں 220 چینی ایپس پر پابندی لگا دی تھی۔ اس فیصلے کے پیچھے کی وجہ چین اور ہندوستان کے درمیان جاری کشیدگی کے بیچ سیکورٹی سے متعلق فکر تھی۔ ’دی مارننگ کانٹیکسٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق نئے ضابطے کے تحت ہینڈ سیٹس کے ٹیئر ڈاؤن (فون کے سارے پارٹس کی جانچ) اور اِن-ڈیپتھ ٹیسٹنگ ضروری کی جا سکتی ہے۔ حکومت اس کے لیے چینی اسمارٹ فون برانڈوں کو نوٹس بھیج کر فون میں استعمال کیے گئے ڈاٹا اور پرزوں کی تفصیلات کا مطالبہ کر سکتی ہے۔

کاؤنٹر پوائنٹ ریسرچ کے اعداد و شمار کے مطابق جن کمپنیوں پر غور کیا جا رہا ہے، ان میں ویوو، اوپو، شیاؤمی اور وَن پلس ہیں، جن کی ہندوستانی اسمارٹ فون بازار میں 50 فیصد سے زیادہ حصہ داری ہے۔ مبینہ طور پر یہ پتہ لگانے کے لیے جانچ کی جا رہی ہے کہ ان چینی اسمارٹ فون برانڈس کے ذریعہ فروخت کیے جانے والے اسمارٹ فون ہندوستانی صارفین کے لیے محفوظ ہیں بھی یا نہیں۔ ڈاٹا اور پرزوں کی تفصیل کی ابتدائی جانچ کے بعد حکومت ہند کو ایک اور نوٹس بھیج سکتی ہے جس میں ان اسمارٹ فون کے ٹیسٹنگ کی ضرورت ہوگی۔


گزشتہ سال چینی ایپس کے خلاف حکومت ہند کی جوابی کارروائی کے بعد سے چینی اسمارٹ فون برانڈس نے ’ہندوستانیت‘ کو کافی جارحانہ طریقے سے فروغ دیا اور ملک میں مقامی پروڈکشن اور سرمایہ کاری میں بھی اضافہ کیا ہے۔ لیکن رپورٹ کے مطابق ان چار چینی کمپنیوں نے ہندوستان میں کی گئی سرمایہ کاری سے متعلق اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا ہے اور نوٹس کو اس کا جواب مانا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں سرمایہ کاری کی تجاویز کا ان تین کمپنیوں اوپو، ویوو اور اس کے ذیلی برانڈ آئی کیو کا سب سے بڑا حصہ تھا، لیکن وعدے کے مطابق ہندوستان میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ ’بزنس اِنسائیڈر ڈاٹ اِن‘ کی رپورٹ کے مطابق زیاؤمی اس میں شامل ہے کہ نہیں یہ واضح نہیں ہو پایا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔