گئو رکشکوں کے ہاتھوں قتل ہوئے جنید اور ناصر کے اہل خانہ انصاف کے منتظر، قاتل پولیس کی پہنچ سے باہر

اطلاعات کے مطابق ملزمان کے حق میں مہاپنچایتیں ہو رہی ہیں اور اعلانیہ یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر پولیس یہاں کارروائی کرنے پہنچی تو اسے بخشا نہیں جائے گا!

<div class="paragraphs"><p>مقتول جنید اور ناصر کے اہل خانہ / تصویر ٹوئٹر</p></div>

مقتول جنید اور ناصر کے اہل خانہ / تصویر ٹوئٹر

user

عمران خان

گئو کشی کے نام پر انتہاپسندوں کے گروہ کا نشانہ بنے راجستھان کے ضلع بھرت پور کے گاؤں گھاٹمیکا کے رہائشی ناصر اور جنید کے معاملہ میں متاثرہ اہل خانہ انصاف کے منتظر ہیں اور قاتل پولیس کی پہنچ سے دور ہیں۔ قتل کے ملزمان کا تعلق ہریانہ کے لوہارو سے ہے اور اہل خانہ کا الزام ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ اور کھٹر حکومت کی پشت پناہی کی وجہ سے گرفتار نہیں ہو سکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق الٹے ملزمان کے حق میں مہاپنچایتیں ہو رہی ہیں اور اعلانیہ یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر پولیس یہاں کارروائی کرنے پہنچی تو اسے بخشا نہیں جائے گا! ادھر جنید اور ناصر کے بیوی بچوں کا رو رو کر برا حال ہے اور ان کے سامنے معاش زندگی کا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ علاقہ میں لگاتار احتجاج کرکے اہل خانہ کے حق میں مالی امداد اور قصورواروں کے لئے عبرتناک سزا کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

علاقہ میوات کافی عرصہ سے فرقہ پرستوں کے نشانہ پر ہے اور آئے دن کبھی گائے کے نام پر تو کبھی داڑھی ٹوپی کے نام پر بے قصور میو مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے راجستھان کے رکبر، عمر اور ہریانہ کے پہلو، جنید اور متعدد افراد کو بھی اسی طرح موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا اور ماہرین کا کہنا ہے یہ وہی پیٹرن ہے جس کے تحت کبھی یوپی، تو کبھی جھارکھنڈ اور یہاں تک شمال مشرق میں بھی کئی مسلمانوں کو گائے کے نام پر تو کبھی بچہ چوری کے نام پر اور کبھی مذہبی شناخت کی وجہ سے ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔


خیال رہے کہ 16 فروری 2023 کو جنید اور ناصر کچھ رشتہ داروں سے ملنے کے لئے اپنے گھر سے نکلے تھے۔ جب یہ دونوں مسلم نوجوان گھر واپس آ رہے تھے تو انہیں مبینہ طور پر گئو رکشکوں کے گروہ نے گھیر لیا۔ الزام ہے کہ انہیں شدید مارا پیٹا گیا اور پھر ہریانہ کے فیروزپور جھرکہ تھانے لے جایا گیا۔ وہ شدید زخمی تھے، پولیس پر الزام ہے کہ انہوں نے نہ تو انہیں اسپتال پہنچایا اور نہ ہی حملہ آوروں کو پکڑا۔ بلکہ الزام یہ الزام ہے کہ گروہ کے ارکان ناصر اور جنید کو ایک ویران جگہ پر لے گئے، انہیں گاڑی کی پچھلی سیٹ سے باندھ دیا اور پھر گاڑی کو آگ لگا دی۔ الزام یہ بھی ہے کہ اس وحشیانہ جرم میں استعمال ہونے والی گاڑی پہلے پولیس گاڑی کے طور پر رجسٹرڈ تھی۔

جنید اور ناصر کے قتل کی واردات کا کلیدی ملزم مونو مانیسر کو بتایا جا رہا ہے اور اس کا گروہ لگاتار اس طرح کی وارداتیں انجام دیتا رہا ہے۔ جنید اور ناصر کے معاملے میں ملزمان نے صرف اتنے پر ہی بس نہیں کیا اور انسٹاگرام اور سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے ’قتل‘ اور ’کاٹنے‘ کے اپنے کام کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔ اس کے ساتھ وہ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ہریانہ کے اعلیٰ پولیس افسران کے ساتھ تصاویر بھی شیئر کرتا ہے۔


معاملہ چونکہ ہریانہ اور رجستھان کی سرحد پر واقع گاؤں کا ہے اور جائے واردات ہریانہ میں ہے تو ہریانہ میں واقع ضلع میوات (نوح) کے لوگوں میں بھی سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ حال ہی میں کئی اخبارات میں میوات میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی خبریں شائع ہوئیں اور علاقہ کو زبردست پولیس فورس نے گھیر لیا۔ یہاں تک کہ کئی دن تک انٹرنیٹ خدمات بھی معطل رکھی گئیں۔ حکومت کے اس اقدام سے بھی لوگوں میں کافی ناراضگی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے لوگوں کا تشدد کا کوئی ارادہ نہیں ہے جس طرح کی کشیدگی کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں وہ بے بنیاد ہیں۔ ان کہا کہنا ہے کہ میوات کو بدامنی والا علاقہ قرار دے کر سیاسی روٹیاں سینکنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ دراصل فیروزپور جھرکہ میں جنید اور ناصر کو قتل کرنے کے واقعہ کے خلاف احتجاج ہوا تھا، جس میں بڑی تعداد میں نوجوانوں نے حصہ لیا اور زبردست نعرے بازی کی۔ اسی واقعہ کا سہارا لے کر پورے میوات میں فورس لگا دی گئی اور قومی میڈیا نے یوں ظاہر کیا گویا یہاں جنگ جیسے حالت ہیں!

دو روز قبل راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے گھاٹمیکا پہنچ کر متاثرہ اہل خانہ سے ملاقات کی اور مالی امداد فراہم کی۔ وزیر اعلیٰ نے یہاں ناصر کی اہلیہ اور ایک گود لی ہوئی بچی کو ایک ایک لاکھ روپے نقد ادا کئے جبکہ 4-4 لاکھ روپے کی ایف ڈی (فکس ڈیپازٹ) کا اعلان کیا۔ وہیں جنید کی اہلیہ اور 6 بچوں کے لئے ہر ایک کو ایک ایک لاکھ روپے اور 4-4 لاکھ روپے کی ایف ڈی کا اعلان کیا گیا۔ گھاٹمیکا گاؤں میں تیار کئے گئے ہیلی پیڈ کے پاس ہی شامیانہ میں وزیر اعلیٰ نے ناصر اور جنید کے کنبوں کے 30-35 افراد سے ملاقات کی اور کہا کہ اس واردات کو انجام دینے والوں کو کسی حالت میں بخشا نہیں جائے گا۔


وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کے گھاٹمیکا دورے کے بعد وہاں چل رہے دھرنے کو فی الحال معطل کر دیا گیا ہے۔ ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ دھرنے کو فی الحال 12 مارچ تک معطل کیا جاتا ہے اور 10 مارچ کو آگے کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ مستقبل میں پورے میوات میں اجلاس کا انعقاد کر کے اس طرح کی سنگین وارداتوں کو روکنے پر غوروخوض ہوگا۔ گھاٹمیکا سے راج گھاٹ تک پیدال مارچ کیا جائے گا اور اس مارچ میں تمام فرقوں سے شرکت کی اپیل کی جائے گا۔ اس کے علاوہ صدر کو مکتوب بھی سونپنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔

(صابر قاسمی کے ان پٹ کے ساتھ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔