آخر چوری پکڑی گئی اور چوکیدار ہی چور نکلا!... ظفر آغا

کانگریس صدر راہل گاندھی اسی بات کی تو شکایت کر رہے ہیں کہ رافیل سودے میں ملک کا مفاد نہیں بلکہ ذاتی مفاد کا خیال رکھا گیا اور اس سے ملک کی دفاع کو نقصان ہوا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

آخر دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو ہی گیا! جی ہاں، رافیل ہوائی جہاز کی خرید و فروخت کے معاملے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی چوری پکڑی گئی۔ کانگریس صدر راہل گاندھی کا الزام ’چوکیدار چور ہے‘ آخر سچ ثابت ہوا۔ یوں تو اس معاملے میں کافی عرصے سے شور تھا، لیکن پچھلے ہفتے ’دی ہندو‘ اخبار کی ایک خبر نے آخر یہ طے کر ہی دیا کہ رافیل خریداری کے معاملے میں وزیر اعظم وزارت دفاع کو درکنار کر خود فرانسیسی حکومت سے اس معاملے میں سودے بازی کر رہے تھے۔ رافیل ہوائی جہاز خریداری کے معاملے میں ’دی ہندو‘ اخبار نے پچھلے ہفتے ایک خبر چھاپی جس میں اس نے وزارت دفاع کی وہ فائل نوٹنگ موجود تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے رافیل خریداری کے معاملے میں فرانس کے ساتھ ’برابر گفت و شنید‘ کے سبب وزارت دفاع کا ہدف اس معاملے میں ’کمزور‘ پڑ گیا ہے۔ اور یہ نوٹنگ کسی اور کی نہیں بلکہ خود ڈیفنس سکریٹری کی تھی۔

اس کے معنی کیا ہوئے! معنی و مقصد دونوں بہت صاف ہیں اور وہ یہ کہ رافیل خریداری معاملے میں فرانس کے ساتھ وزارت دفاع نے بات چیت شروع کی تھی۔ یہ جہاز ائیر فورس کے لیے خریدے جانے تھے تو ظاہر ہے کہ وزارت دفاع کو ہی اس سودے کو طے کرنا تھا۔ دراصل، یہ ڈیل یو پی اے حکومت کے دوران وزارت دفاع کے ذریعہ طے ہو چکی تھی۔ اس وقت یہ مسودہ مودی حکومت سے کم داموں اور زیادہ جہازوں کے لیے طے ہوا تھا۔ پھر حکومت بدل گئی۔ مودی حکومت کے دوران بھی اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر کی نگرانی میں وزارت دفاع نے فرانس کے ساتھ اس معاملے کی بات چیت شروع ہوئی۔ اس وقت فرانس سے جو گفتگو ہو رہی تھی اس میں یہ بھی طے تھا کہ ہندوستان میں رافیل جہاز بنانے کا کام حکومت کی ڈیفنس کمپنی ایچ اے ایل کرے گی۔

لیکن یکایک سنہ 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی فرانس گئے۔ ان کے پیچھے پیچھے انل امبانی بھی وہاں پہنچ گئے۔ 10 اپریل 2015 کو یہ خبر آئی کہ وزیر اعظم نے فرانس کے ساتھ تقریباً 60 ہزار کروڑ قیمت میں رافیل جہاز کی خریداری کا سودا طے کر لیا ہے۔ اور سب سے حیرت انگیز بات جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ ہندوستان میں اسی جہاز کو بنانے کا کام انل امبانی کی اس کمپنی کو دیا گیا ہے جس کے پاس اس وقت تک کمپنی قائم کرنے کے لیے زمین بھی نہیں تھی۔ اس سلسلے میں جب مودی کے وزیر دفاع منوہر پاریکر سے سوال کیا گیا کہ آپ کو اس معاملے کی کوئی خبر ہے؟ تو منوہر پاریکر کا جواب تھا ’’مجھ کو یہ خبر اس وقت ملی جب میں گوا کے ایک مچھلی بازار میں مچھلی خرید رہا تھا۔‘‘

ان حقائق سے یہ ظاہر ہے کہ اس سودے کی خریداری میں وزیر اعظم کی ایما پر ان کے دفتر نے اس معاملے میں بے جا دخل اندازی مودی حکومت کے برسراقتدار آتے ہی شروع کر دی تھی۔ تبھی تو ’دی ہندو‘ اخبار میں جو فائل نوٹنگ آئی ہے اس سے یہ بات واضح ہے کہ وزارت دفاع کو اس بات پر تشویش تھی اور اس کا یہ خیال تھا کہ اس طرح کی دخل اندازی سے ملک کو نقصان ہو سکتا ہے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی اسی بات کی تو شکایت کر رہے ہیں کہ رافیل سودے میں ملک کا مفاد نہیں بلکہ ذاتی مفاد کا خیال رکھا گیا اور اس سے ملک کی دفاع کو نقصان ہوا۔ اس معاملے میں راہل وزیر اعظم سے حسب ذیل تین سوال پوچھ رہے ہیں:

1. آخر رافیل ڈیل میں یو پی اے حکومت نے جن قیمتوں پر سودا طے کیا تھا اس کو رد کر زیادہ قیمت پر فرانس سے کم جہاز خریدنے کی بات کیسے اور کیوں طے ہوئی؟

2. دوسری بات جو کانگریس صدر برابر پوچھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ حکومت نے رافیل جہازوں کو ہندوستان میں بنانے کا ٹھیکا سرکاری کمپنی ایچ اے ایل کو ہٹا کر انل امبانی کی ایک ایسی کمپنی کو کیوں دے دیا جس کا اس معاملے میں کوئی تجربہ نہیں ہے؟

3. تیسرا سوال جس کا الزام راہل گاندھی لگا رہے تھے، جو اب ’دی ہندو‘ کی خبر سے طےہو گئی ہے وہ یہ کہ اس سودے کی خریداری میں وزارت دفاع اور وزیر دفاع کو درکنار کر خود وزیر اعظم نریندر مودی نے کم جہازوں کے لیے زیادہ قیمت پر یہ سودا کیوں طے کیا؟

ظاہر ہے کہ وہ وزیر اعظم اور موجودہ وزیر دفاع سیتارمن کے پاس ان تینوں سوالوں میں سے کسی ایک سوال کا بھی جواب نہیں ہے۔ یعنی سچ یہ ہے کہ رافیل ڈیل میں حکومت کی چوری نہ صرف کھل گئی بلکہ چور رنگے ہاتھوں پکڑ بھی لیا گیا۔ اب گردن بچانے کے لیے حکومت کی جانب سے سیتارمن طرح طرح کے حیلے حوالے پیش کر رہی ہیں۔ مثلاً ابھی جب ’دی ہندو‘ کی رپورٹ کے حوالے سے راہل گاندھی نے یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھایا تو وزیر دفاع سیتارمن نے کچھ دیر بعد یہ عذر پیش کیا کہ ’دی ہندو‘ اخبار نے وزیر دفاع سکریٹری کی نوٹنگ کے جواب میں اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر کا وہ جواب نہیں چھاپا جو انھوں نے اپنے سکریٹری کو دیا تھا۔ اب منوہر پاریکر کا وہ جواب ملاحظہ فرمائیے۔ پاریکر جواب میں لکھتے ہیں ’’آپ (اس معاملے میں) پریشان نہ ہوں۔‘‘ اس جواب سے یہ تو ظاہر نہیں ہوتا کہ پاریکر سارے معاملے سے مطمئن تھے۔ یا وزیر اعظم اس مسودے میں دخل اندازی نہیں کر رہے تھے۔ اب وہی پاریکر کینسر سے موت و زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور کسی قسم کے جواب کے لائق نہیں بچے ہیں۔

بات صرف اتنی ہے کہ رافیل معاملے میں چوکیدار کی چوری پکڑی جا چکی ہے۔ اب وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر دفاع سیتارمن اپنی چوری چھپانے کے لیے طرح طرح سے پردہ داری کر رہے ہیں۔ لیکن چور اپنی ہر چوری کا ثبوت ضرور چھوڑتا ہے۔ تب ہی تو آئے دن اس معاملے پر کوئی نہ کوئی بات سامنے آتی ہے اور راہل ملک کو آگاہ کرتے ہیں کہ ’بھائیو! چوکیدار چور ہے‘۔ جہاں یہ آواز اٹھتی ہے بس چور بلبلا اٹھتا ہے اور پھر طرح طرح کے جھوٹ بولتا ہے۔ لیکن وہ اپنے جھوٹ کے جال میں اور پھنستا جاتا ہے۔ نتیجے میں ملک میں یہ شور بڑھتا جاتا ہے کہ چوکیدار چور ہے، چور ہے۔ بات تو یہ ہے کہ اب گلی گلی یہ شور ہے نریندر مودی چور ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔