ایودھیا مسجد کی تعمیر رمضان کے بعد ہوگی شروع، ’نئی مسجد کسی مغل بادشاہ کے نام نہیں، بلکہ مولوی احمد اللہ شاہ کے نام سے منسوب ہوگی‘

طہر حسین نے کہا ’’ہم رمضان کے بعد ایک میٹنگ طلب کریں گے، جس میں ہم تعمیر شروع کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دیں گے۔

<div class="paragraphs"><p>ایودھیا کے دھنی پور کی مسجد کا نقشہ/ تصویر بشکریہ ٹوئٹر</p></div>

ایودھیا کے دھنی پور کی مسجد کا نقشہ/ تصویر بشکریہ ٹوئٹر

user

قومی آوازبیورو

ایودھیا: ایودھیا میں بابری مسجد کے عوض دھنی پور گاؤں میں دی گئی زمین پر مسجد کا تعمیری کام رمضان کے مہینے کے بعد شروع ہونے کی توقع ہے۔ ایودھیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (اے ڈی اے) نے بورڈ کے ایک حالیہ اجلاس میں دھنی پور گاؤں میں مسجد کمپلیکس کی ترتیب (لے آؤٹ) کو منظوری دے دی ہے۔

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور اے ڈی اے کے صدر نتیش کمار نے کہا ’’حال ہی میں منعقدہ بورڈ اجلاس میں ایودھیا کی مسجد اور پیچیدہ منصوبے کے لئے زیر التواء درخواستوں کو منظوری دی گئی ہے۔ کچھ خانہ پری کے بعد منظور شدہ ترتیب کو سنی سنٹرل وقف بورڈ کے حوالے کر دیا جائے گا۔‘‘


وقف بورڈ نے کہا ہے کہ وہ اس تناظر میں رمضان کے بعد ایک اجلاس طلب کرے گا۔ دھنی پور میں تعمیرات کی نگرانی کے لئے وقف بورڈ کے ذریعہ تشکیل دیئے گئے ٹرسٹ انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن (آئی آئی سی ایف) کے سکریٹری اطہر حسین نے کہا ’’ہم رمضان کے بعد ایک میٹنگ طلب کریں گے، جس میں ہم تعمیر شروع کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دیں گے۔ مسجد کمپلیکس کی تعمیر شروع کرنے کے لئے آخری تاریخ کا بھی فیصلہ کریں گے۔‘‘ رمضان کا مقدس مہینہ 22 مارچ سے شروع ہونے اور 21 اپریل کو اختتام پذیر ہونے کا مکان ہے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے آئین بنچ نے 9 نومبر 2019 کو ایودھیا میں واقع اس مقام پر رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ سنایا تھا، جہاں 16 ویں صدی کی بابری مسجد کو 'کارسوکوں' نے منہدم کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اسی فیصلے میں حکومت سے کہا تھا کہ وہ بابری مسجد کے بدلے مسجد کی تعمیر کے لئے ایودھیا میں اہم اور مناسب مقام پر 5 ایکڑ کا پلاٹ الاٹ کرے۔


وقف بورڈ کا کہنا ہے کہ وہ نئی مسجد کو 16 ویں صدی کی اس بابری مسجد سے وابستہ نہیں کرنا چاہتے، جسے 6 دسمبر 1992 کو گرا دیا گیا تھا۔ لہذا، نئی مسجد کا نام کسی مغل شہنشاہ کے نام پر نہیں رکھا جائے گا۔ اطہر حسین نے کہا کہ مسجد اور کیمپس کا نام مجاہد آزادی اور انقلابی مولوی احمد اللہ شاہ فیض آبادی کے نام پر رکھا جائے گا۔ اس میں ایک مسجد، اسپتال، کمیونٹی کچن اور میوزیم شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا ’’کمپلیکس کا بیشتر رقبہ اسپتال کے لئے مختص کیا جائے گا۔ ہمارا منصوبہ ایک بڑا مخصوص اسپتال تیار کرنا ہے جو جدید ترین سہولیات سے آراستہ ہوگا۔ پورا اسپتال دو مراحل میں تعمیر کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں 100 بستروں کا انتظام کیا جائے گا، جبکہ دوسرے مرحلے میں مزید 100 بستر نصب کئے جائیں گے۔ اسپتال میں کینسر کی دیکھ بھال، ٹرانسپلانٹیشن، ریڑھ کی ہڈی، دل، روبوٹکس، ایتھورپیڈکس، ایمرجنسی اور دیگر کا بہترین علاج ہوگا۔


ٹرسٹ کے ذریعہ مسجد کو ڈیزائن کرنے کے لئے پروفیسر ایس ایم اختر کو ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ٹرسٹ نے اس کے علاوہ ایک مشہور مورخ، بین الاقوامی تعلقات کے ماہر اور ہندوستانی کھانوں کے مورخ پروفیسر پشپش پنت کو بھی اپنے آرکیال میوزیم کا کیوریٹر کے طور پر مقرر کیا ہے، جو مسجد کمپلیکس کا ایک حصہ ہوگا۔

مسجد میں ایک وقت وقت میں 2000 افراد نماز ادا کر سکیں گے اور اس کا ڈیزائن گول ہوگا۔ یہ بابری مسجد سے چار گنا بڑی ہوگی۔ اسپتال کمپلیکس مسجد کے سائز سے چھ گنا بڑا ہوگا۔ یہ مسجد 3500 مربع میٹر اراضی پر تعمیر کی جائے گی جبکہ اسپتال اور دیگر سہولیات 24150 مربع میٹر کے رقبے میں ہوں گی۔ مسجد میں بجلی کی ضروریات شمسی پینل کی مدد سے پوری ہوں گی اور بجلی کا کوئی کنکشن نہیں ہوگا۔ اس منصوبے کے لئے چندہ جمع کرنے کے لئے ابھی تک کوئی تفصیلی منصوبہ نہیں ہے۔ تعمیر کے لئے فنڈ جمع کرنے کے لئے مسجد اور دیگر عمارتوں کے لئے دو الگ الگ بینک اکاؤنٹ بنائے گئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔