’بی جے پی حکومت نے پہلے ہمارے ملک کی ثقافت کو آلودہ کیا، اب ماحولیات کو آلودہ کرنے پر آمادہ‘

کانگریس نے کہا کہ ’’اراولی کے پہاڑ ختم ہو گئے، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ اراولی صرف پہاڑ نہیں، ہمارے لیے لائف لائن ہے۔ یہ ہماری ثقافتی وراثت کی علامت ہے۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>گرافکس ’ایکس‘، @IYC</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

ایک طرف کانگریس ’اراولی پہاڑی سلسلہ‘ کو مودی حکومت کی نئی تعریف سے بچانے کے لیے کوشاں ہے، دوسری طرف کانگریس سے منسلک مختلف تنظیموں نے سڑکوں پر نکل کر ’نئی تعریف‘ کے خلاف آواز بلند کرنی بھی شروع کر دی ہے۔ انڈین یوتھ کانگریس نے تو 7 جنوری سے 20 جنوری تک ’اراولی ستیاگرہ یاترا‘ نکالنے کا اعلان بھی کیا ہے، جس میں لوگوں کی زبردست بھیڑ ہونے کی امید ظاہر کی جا رہی ہے۔ بڑی تعداد میں سماجی شخصیات اس یاترا میں شرکت کر سکتے ہیں، کیونکہ یہ سیاست سے ہٹ کر ماحولیات کو بچانے کی جنگ ہے۔

اس درمیان این ایس یو آئی راجستھان نے آج جئے پور میں ’اراؤلی بچاؤ مارچ‘ نکالا، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوئی۔ اس کی ایک ویڈیو کانگریس نے اپنے ’ایکس‘ ہینڈل پر شیئر کی ہے، جس میں کانگریس جنرل سکریٹری اور ٹونک سے رکن اسمبلی سچن پائلٹ میڈیا سے بات کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ سچن پائلٹ کہتے ہیں کہ ’’100 میٹر کی تعریف دے کر حکومت نے یہ واضح کر دیا کہ 90 فیصد پہاڑی غیر محفوظ ہو جائیں گے۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم نے کانکنی پر پابندی لگائی ہے، لیکن غیر قانونی کانکنی پر روک کون لگائے گا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اراولی پہاڑ گجرات، راجستھان، ہریانہ، دہلی میں موجود ہے اور ان چاروں ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ اب ان کو یہ قدم اٹھانا ہوگا کہ عدالت میں جائیں اور معاملے پر از سر نو غور کرنے کی درخواست کریں۔‘‘


سچن پائلٹ کا کہنا ہے کہ اگر زیر زمین پانی کی سطح، ماحولیات، جنگل، جانور، پرندے غیر محفوظ ہو جائیں گے تو آنے والی نسل ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ راجستھان میں ریگستا کا جو پھیلاؤ ہے، اراولی پہاڑی سلسلہ نہیں ہوتا تو یہ دہلی تک پہنچ جاتا۔ آج دہلی میں جو فضائی آلودگی دیکھنے کو مل رہی ہے، اراولی کی غیر موجودگی میں حالات مزید بدتر ہو جاتے۔

اس ویڈیو کے ساتھ کانگریس نے اراولی کو بچانے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے۔ کانگریس نے لکھا ہے کہ ’’اگر اراولی کے پہاڑ ختم ہو گئے، تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ اراولی صرف پہاڑ نہیں، ہمارے لیے لائف لائن ہے۔ یہ ہماری ثقافتی وراثت کی علامت ہے، جسے مودی حکومت تباہ کرنے پر آمادہ ہے۔‘‘ پارٹی نے یہ بھی کہا کہ ’’حکومت لاکھ کوشش کر لے، ہم کسی بھی قیمت پر اراولی کو مرنے نہیں دیں گے۔ اس تاناشاہ حکومت کو جھکنا ہی پڑے گا۔‘‘


قابل ذکر ہے کہ آج ہی انڈین یوتھ کانگریس کے قومی صدر اودے بھانو چب نے ایک پریس کانفرنس میں ’اراولی ستیاگرہ یاترا‘ نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’بی جے پی حکومت نے پہلے ہمارے ملک کی ثقافت کو آلودہ کیا اور اب وہ ہمارے ماحولیات کو آلودہ کرنے پر آمادہ ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اراولی محض پہاڑ نہیں ہے، یہ شمالی ہند کو حفاظت فراہم کرتا ہے۔ اراولی کی پہاڑیاں پانی کی سطح، آلودگی، درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ’ریگستان‘ کو روکنے کا کام بھی کرتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ گزشتہ کئی سالوں سے ہماری ثقافت کو سنبھال کر رکھے ہوئی ہیں۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ 1995 میں کہا تھا کہ اراولی رینج میں کانکنی غیر قانونی ہے، لیکن سپریم کورٹ نے اب کہا ہے کہ جو پہاڑ 100 میٹر سے کم ہوں گے، وہ اراولی میں شمار نہیں ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اراولی پہاڑی سلسلہ کے 90 فیصد پہاڑ 100 میٹر سے کم اونچائی والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اراولی کی ’نئی تعریف‘ کے خلاف محاذ آرائی کر رہے ہیں۔