جدید ہندوستان کے معمار پنڈت نہرو...ملکارجن کھڑگے

مودی حکومت 8 سال مکمل کر چکی ہے لیکن وہ جواہر لال نہرو کی قائم کردہ جمہوری روایات اور اقدار کو مٹانے میں مصروف ہے اور ان کے تعاون کو سراہنے کے بجائے لوگوں کے دلوں میں ان کے تئیں نفرت بھر رہی ہے

جواہر لال نہرو / Getty Images
جواہر لال نہرو / Getty Images
user

قومی آوازبیورو

ملکارجن کھڑگے، قائد حزب اختلاف، راجیہ سبھا، انڈین پارلیمنٹ

آزاد ہندوستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کی مضبوط بنیاد رکھنے والے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی برسی کے موقع پر قوم انہیں یاد کر رہی ہے۔ ہندوستان کی جدوجہد آزادی اور آزاد ہندوستان کی تعمیر نو میں ان کی تاریخی شراکت رہی ہے۔ 27 مئی 1964 کو جب پنڈت جواہر لال نہرو کا دہلی میں انتقال ہوا تو پوری دنیا سوگوار ہوئی۔ جب جمنا کے کنارے ’شانتی ون‘ میں ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں تو 15 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے انہیں آخری سلام پیش کیا تھا۔ یہ ان کی بے پناہ مقبولیت کا ثبوت ہے۔

آزادی کے بعد بہت مشکل چیلنج کے درمیان پنڈت جواہر لال نہرو نے 15 اگرست 1947 کو ملک کے وزیر اعظم کے طور پر ذمہ داری سنبھالی۔ جو لوگ دعویٰ کر رہے تھے کہپ ہندوستان جلد ہی تقسیم ہو جائے گا، ان کو مایوسی ہوئی اور نہرو جی کی قیاد میں ہندوستان طاقتور جمہوری طاقت کے طور پر ابھرا۔ مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہند کی مسلم لیگ کی ضد کی انہوں نے پرزور مخالفت کی۔ مخالف نظریات کے حامل افراد کو ساتھ لے کر ہندوستان کو سنیا کا بہترین دستور عطا رکنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے بابا صاحب کو آئین کی ڈرافٹ کمیٹی کا صدر مقرر کیا جو نہرو کی حکومت میں ملک کے پہلے وزیر قانون بھی بنے۔


پنڈت نہرو نے 17 برست تک وزیر اعظم کے طور پر ملک کی قیادت کی۔ اس وقت پارلیمنٹ میں کانگریس کو وسیع اکثریت حاصل تھی لیکن وہ تمام نظریار کے لیڈران کا احترام کرتے تھے اور ان کی بات سنتے تھے۔ ہندوستان میں مضبوط اور جوابدہی والی جمہوریت کے قیام کے لئے مخالف لیڈران کے مشوروں کو انہوں نے ہمیشہ اہمیت دی۔

مرکز کی مودی حکومت نے اپنا آٹھواں سال مکمل کر لیا ہے لیکن وہ پنڈت جواہر لال نہرو کی قائم کردہ جمہوری روایات اور اقدار کو مٹانے میں لگاتار مصروف ہے۔ نہرو کے تعاون کو سراہنے کے بجائے لوگوں کے دلوں میں ان کے تئیں نفرت بھر رہی ہے۔ حکومت میں بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ پنڈت نہرو کو ہر مسئلہ کی وجہ بتا کر ان کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ یہ ان کی مادری تنظیم آر ایس ایس کے کہنے پر کیا جا رہا ہے۔ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ان کی شراکت، کامیابیوں اور قربانیوں کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مہاتما گاندھی کے قاتلوں اور ان کے نظریاتی رہنماوں کی تعریف کی جا رہی ہے۔ نفرت انگیز تقریریں ہو رہی ہیں۔ یہ حکومت انہیں روکنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔


ہندوستان کو 1947 میں جب سیاسی آزادی حاصل ہوئی تو اس کو بے شمار چیلنجز درپیش تھے۔ نہ تو وافر مقدار میں اناج دستیاب تھا اور نہ ہی صنعتیں موجود تھیں۔ ہم سوئی تک نہیں بنا سکتے تھے۔ نہ صحت کی سہولیات تھیں، نہ آبپاشی، نہ بجلی، نہ سڑکیں اور نہ ہی نقل و حمل اور مواصلات کے مناسب ذرائع موجود تھے۔ ملک کو سینکڑوں شاہی ریاستوں کے جاگیردارانہ راج سے آزاد کرانا بہت پیچیدہ کام تھا لیکن سردار ولبھ بھائی پٹیل اور دیگر معاونین کی مدد سے ملک کو متحد کرنے کا کام انجام دیا گیا۔ پلاننگ کمیشن کا قیام عمل میں آیا اور پنج سالہ منصوبوں کے ذریعے ڈیموں، بجلی گھروں، جوہری توانائی، سڑکوں، ریل، مواصلات، سیکورٹی، تعلیمی اداروں، آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم، پبلک سیکٹر انڈرٹیکنگس اور تمام ترقیاتی کاموں کی بنیاد رکھی گئی۔ انہوں نے بڑے آبپاشی ڈیموں اور منصوبوں کو جدید ہندوستان کے مندر قرار دیا۔ ان کے اپنے بنائے گئے راستہ سے 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں سبز انقلاب کی آمد ہوئی، جس نے ملک کو غذائی اجناس میں خود کفیل بنایا۔ انہیں جدید ہندوستان کے حقیقی معمار کے طور پر جانا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔