مسلم خاتون رضاکار کی عصمت دری اور قتل معاملہ پر عآپ حکومت کی خاموشی افسوسناک

پروفیسر بصیر احمد نے سوال کیا کہ کیا خواتین کے ساتھ پیش آنے والے جرائم بھی ہندو-مسلم کی بنیاد پر طے ہوں گے، نربھیا معاملے میں جس طرح زور دار احتجاج کیا گیا تھا رابعہ معاملے میں ویسا کیوں نہیں ہو رہا۔

علامتی تصویر، آئی اے این ایس
علامتی تصویر، آئی اے این ایس
user

یو این آئی

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلس کے قومی صدر پروفیسر ڈاکٹر بصیر احمد خان نے دہلی کی سول ڈفنس خاتون رضا کار کی عصمت دری اور بہیمانہ قتل کے معاملے میں عآپ کی دہلی حکومت کی خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے افسوس ناک قرار دیا ہے۔ انہوں نے آج یہاں جاری ایک بیان میں کہا کہ کیا اب خواتین پر ڈھائے جانے والے سنگین جرائم بھی ہندو-مسلم کی بنیاد پر طے کئے جائیں گے۔ نربھیا معاملے میں جس طرح زور دار احتجاج کیا گیا تھا آخر سول ڈفنس خاتون رضا کار کے معاملے میں سرد مہری کیوں۔

انہوں نے دہلی پولیس کی کارکردگی کو بھی بھروسہ مند قرار نہیں دیا، چونکہ دہلی پولیس ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ کے براہ راست ماتحت ہے اور دہلی فسادات کے سلسلے میں اس کی جانب داری کی مذمت کرتے ہوئے عدالت نے پولیس پر جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ کم ازکم جرائم کے معاملات میں پولیس کو ہندو-مسلم کی تفریق نہیں کرنی چاہیے۔


انہوں نے کہا کہ رہی سیاست کی بات تو سنگھ پریوار اور بی جے پی کی سیاست ہی فرقہ واریت اور نفرت کے سہارے چلتی ہے۔ سول ڈفنس خاتون رضا کار کے معاملے میں ہریانہ سرکار سے کوئی امید نہیں اور دہلی پولیس کی یہ دلیل کہ لاش سورج کنڈ سے ملی ہے بے معنی ہے۔ ایک شخص نے خود آکر گرفتاری دی ہے اور چونکہ خاتون رضا کار دہلی کے ایس ڈی ایم آفس میں کام کرتی تھی لہذا اس کی بھی تفتیش ضروری ہے کہ جرم دہلی میں سرزد کرکے سورج کنڈ میں تو لاش نہیں ڈالی گئی۔ امت شاہ کو اپنے عہدے کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے پولیس کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی ہدایت دینی چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔