تلگودیشم پارٹی کا اپنے قیام کے بعد پہلی مرتبہ تنہا مقابلہ

اے پی میں لوک سبھا انتخابات کے ساتھ اسمبلی انتخابات میں بھی تلگودیشم نے تنہا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح تلگودیشم پارٹی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسمبلی انتخابات میں تنہا مقابلہ کر رہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

حیدرآباد: تلگوعزت نفس کے نام پر قائم کردہ تلگودیشم پارٹی کے قیام کے 36برس مکمل ہوچکے ہیں۔تلگو فلموں کے مشہور اداکار این ٹی راماراو نے 29ِٓمارچ 1982 کو یہ پارٹی قائم کی تھی۔ ابھی تک اس جماعت نے انتخابات میں حلیف جماعتوں کے ساتھ مل کر مقابلہ کیا ہے۔ چاہے قومی سیاست میں اہم رول ہو یا پھر ریاست کے سیاسی حالات، تلگودیشم نے ہمیشہ حلیف جماعتوں کا تعاون حاصل کیا ہے تاہم اپنے قیام کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ تلگودیشم پارٹی اسمبلی انتخابات میں تنہا مقابلہ کر رہی ہے۔

ماضی میں حلیف جماعتوں کا چاہے اثر ہو یا نہ ہو، انہیں ساتھ لے کر چلنا تلگودیشم پارٹی کا اُصول رہا تھا۔جب بھی تلگودیشم پارٹی نے شاندار کامیابی حاصل کی، اس کا فائدہ حلیف جماعتوں کو ہوا۔ جب بھی اس کو شکست ہوئی، اس کا نقصان حلیف جماعت کو بھی ہوا۔ 1982میں پارٹی کے قیام کے بعد 1983میں پہلی مرتبہ اسمبلی انتخابات کا سامنا تلگودیشم پارٹی نے کیا۔ پارٹی نے سنجے وچار منچ نامی پارٹی سے اتحاد کیا۔

منیکا گاندھی کی زیرقیادت اس پارٹی کو تلگودیشم پارٹی کے بانی این ٹی راماراو نے اسمبلی کی پانچ نشستیں دی تھیں۔ ان انتخابات میں تلگودیشم کو شاندار کامیابی ملی تھی۔ 1984میں اندراگاندھی کے قتل کے بعد ہوئے لوک سبھا انتخابات میں اے پی کے ماسوا ملک بھر کی کئی جماعتوں کو بری طرح شکست ہوئی تھی تاہم اے پی میں تلگودیشم نے شاندار کامیابی درج کروائی تھی۔ بی جے پی کو ان انتخابات میں صرف دو نشستیں ہی مل پائیں۔ اس کے تلگودیشم سے اتحاد کے نتیجہ میں بی جے پی کو متحدہ اے پی کے ہنمکنڈہ لوک سبھا حلقہ سے کامیابی حاصل ہوئی اور تلگودیشم پارٹی لوک سبھا میں سب سے بڑی اپوزیشن بن گئی کیونکہ اس کو سب سے زیادہ 30 نشستیں حاصل ہوئیں۔

این ٹی راماراو کی یہ بدقسمتی رہی کہ 1983میں تلگودیشم کی کامیابی کے ایک سال بعد ان کے قریبی دوست این بھاسکر راو جو تلگودیشم پارٹی کے بانیوں میں شمار کیے جاتے تھے، نے ان کو دھوکہ دیا اور خود وزیراعلی بن گئے۔ این ٹی راما راو کو 1994میں بھی ان کی پارٹی کے برسراقتدار آنے کے ایک سال کے بعد ان کے داماد این چندرابابو نائیڈو نے اقتدار سے بے دخل کردیا اور خود وزیراعلی بن بیٹھے۔

سال 1984 میں این بھاسکر راو کی جانب سے این ٹی راما راو کی بے دخلی اور وزارت اعلی کے عہدہ پر خود فائز ہونے کے ایک ماہ کی مدت کے باوجود اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے میں ناکامی کے بعد اُس وقت کے گورنر ڈاکٹرشنکر دیال شرما نے این ٹی راما راو کی حکومت کو بحال کردیا ،1984میں اندراگاندھی کے قتل کے بعد لوک سبھا انتخابات کا اعلان کیا گیا تھا۔ بعد ازاں این ٹی راما راو نے اسمبلی تحلیل کردی تھی۔

سال 1985 میں منعقدہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی اوربائیں بازو کے ساتھ تلگودیشم کا اتحاد ہوا۔1989میں ہوئے اسمبلی اورلوک سبھا انتخابات میں تلگودیشم کی جانب سے ایک مرتبہ پھر بی جے پی اور بائیں بازو سے اتحاد کیا گیا۔ ان انتخابات میں ملک بھرمیں راجیو گاندھی کے خلاف اپوزیشن متحد ہوئی تاہم اس اتحاد کو شکست ہوئی اور کانگریس نے کامیابی حاصل کی۔1991میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں تلگودیشم پارٹی نے نیشنل فرنٹ سے اتحاد کیا۔ 1994میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں این ٹی راما راو کی لہر دیکھی گئی تھی۔ تلگودیشم نے اُس وقت بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر انتخابات کا سامنا کیا تھا اور شاندار کامیابی حاصل کی تھی تاہم اس اتحاد میں بی جے پی شامل نہیں تھی۔

سال 1995میں تلگودیشم کو ہی اندرونی بغاوت کا سامنا کرناپڑ۔ این ٹی راماراو کی جگہ چندرابابو نائیڈو وزیراعلی بن گئے۔ 1998میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں تلگودیشم نے بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر انتخابی مقابلہ کیا۔ اس وقت مرکز میں واجپئی کی قیادت میں مرکز میں بی جے پی کی حکومت بنی۔1999میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں تلگودیشم نے بی جے پی کے ساتھ مفاہمت کی، اس اتحاد کو شاندار کامیابی ملی اور چندرابابو دوسری مرتبہ وزیراعلی بنے۔ 2004 میں لوک سبھا اور اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ منعقد کیے گئے۔ ان انتخابات میں تلگودیشم پارٹی نے بی جے پی کے ساتھ مفاہمت کی تھی تاہم اس اتحاد کو شکست ہوئی اور کانگریس زیرقیادت یو پی اے برسراقتدار آئی۔

ان انتخابات کے بعد تلگودیشم نے بی جے پی سے دوری اختیار کرلی اور 2009 میں تلگودیشم پارٹی نے ٹی آرایس اور بائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل عظیم اتحاد کانگریس کے خلاف تشکیل دیاتھا۔ اس اتحاد کو شکست ہوئی تھی اور کانگریس مرکز کے ساتھ ساتھ ریاست میں برسراقتدار آئی ۔2014 کے انتخابات میں تلگودیشم نے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا تھا۔ اس اتحاد کو کامیابی ملی، مرکز میں بی جے پی اور ریاست میں تلگودیشم کو کامیابی ملی۔

بعد ازاں اے پی کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے میں ناکافی کا الزام لگاتے ہوئے این ڈی اے سے تلگودیشم علاحدہ ہوگئی ۔2018میں منعقدہ تلنگانہ اسمبلی کے انتخابات میں تلگودیشم پارٹی، کانگریس زیرقیادت عظیم اتحاد کا حصہ تھی۔ یہ عظیم اتحاد ریاست کی حکمران جماعت ٹی آرایس کے خلاف تشکیل دیا گیا تھا۔ اس اتحاد میں کانگریس کے ساتھ ساتھ تلگودیشم، سی پی آئی اور جناسمیتی بھی شامل تھیں تاہم اس اتحاد کو ٹی آرایس کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اب اے پی میں منعقد ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے ساتھ اسمبلی انتخابات میں بھی تلگودیشم نے تنہا مقابلہ کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح تلگودیشم پارٹی تاریخ میں پہلی مرتبہ ان اسمبلی انتخابات میں تنہا مقابلہ کر رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔