سوار ضمنی انتخاب: اعظم خان کے لیے خود کو ثابت کرنے کی آخری جنگ! 13 تاریخ کو آئے گا نتیجہ

10 مئی کو ہوئے ضمنی انتخاب میں 44 فیصد ووٹنگ ہوئی ہے۔ اس بار اعظم خان انورادھا چوہان کو الیکشن لڑا رہے ہیں۔ انورادھا چوہان سماج وادی پارٹی کی لیڈر ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ اعظم خان کی معتمد ہیں۔

اعظم خان، تصویر آئی اے این ایس
اعظم خان، تصویر آئی اے این ایس
user

آس محمد کیف

اتر پردیش کی سیاست کے قدآور لیڈر اعظم خان نے اپنی سیاسی زندگی میں اپنی افادیت اور موجودگی ثابت کرنے کے لیے شاید آخری جنگ لڑی ہے۔ اعظم خان کے بیٹے عبداللہ اعظم کو سزا سنائے جانے کے بعد خالی ہونے والی اسمبلی سیٹ سوار میں ضمنی انتخاب مکمل ہو چکا ہے۔ یہاں 10 مئی کو ضمنی انتخاب میں 44 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ یہاں اس بار اعظم خان انورادھا چوہان کو الیکشن لڑا رہے ہیں۔ انورادھا چوہان سماج وادی پارٹی کی لیڈر ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ اعظم خان کی معتمد ہیں۔ ان کے مسلم امیدوار رام پور ضمنی انتخاب میں بی جے پی کے آکاش سکسینہ سے ہار گئے تھے، جس کے بعد انہوں نے انورادھا چوہان پر داؤ کھیلا ہے۔ اس الیکشن کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ بی جے پی اتحاد نے ایک مسلم امیدوار، جبکہ ایس پی نے ہندو امیدوار کو میدان میں اتارا ہے۔

سوار اسمبلی سیٹ پر ہونے والے ضمنی انتخاب کے دوران ایس پی کی جانب سے انتظامیہ پر منمانی کے کئی الزامات لگے ہیں۔ رام پور کی اس مسلم اکثریتی اسمبلی سیٹ میں 299188 ووٹر ہیں۔ بی جے پی اتحاد کے امیدوار اور اپنا دل (ایس) کے لیڈر شفیق انصاری اور ایس پی کی انورادھا چوہان کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ اتر پردیش میں میونسپل انتخابات، سوار ودھان سبھا الیکشن میں کئی جگہوں پر استعمال ہونے والے بیلٹ پیپرز کے درمیان ای وی ایم کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس اسمبلی الیکشن کو لے کر عدالتی ہنگامہ آرائی کے درمیان ریاست میں کافی بحث ہوئی ہے۔ اس الیکشن کو بھی بہت حساس سمجھا جاتا تھا۔ بہت سے معاملات اس الیکشن کی اہمیت ہے، حالانکہ اتر پردیش کی یوگی حکومت کی پوزیشن میں کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن یہ الیکشن ایک بار پھر اعظم خان کے وجود کا فیصلہ کرے گا۔ یہ الیکشن یہ بھی بتائے گا کہ اعظم خان میں کتنی سیاسی طاقت رہ گئی ہے۔


خیال رہے کہ 2022 کے اسمبلی انتخابات میں اعظم کے بیٹے عبداللہ نے اس اسمبلی حلقے سے کامیابی حاصل کی تھی، تب بھی سوار اتر پردیش کی ایک ایسی ہی اسمبلی سیٹ تھی جہاں سے بی جے پی اتحاد میں شامل اپنا دل (ایس) نے مسلم کو امیدوار بنایا تھا۔ عبداللہ اعظم اس سیٹ پر الیکشن جیت کر پہلی مرتبہ اتر پردیش قانون ساز اسمبلی میں داخل ہوئے۔ 13 فروری 2023 کو عبداللہ اعظم کو 15 سال پرانے چھجلیٹ کیس میں سزا سنائی گئی، انہیں 2 سال قید کی سزا سنائی گئی اور وہ اپنی اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہوگئے۔ الیکشن کمیشن نے کرناٹک انتخابات کے ساتھ اس اسمبلی سیٹ پر ضمنی انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا۔ عبداللہ اعظم الیکشن ملتوی کرانے کے لیے ہائی کورٹ تک گئے لیکن الیکشن وقت پر ہوا۔

رام پور کی سوار ودھان سبھا کے اس انتخاب کا ریاست بھر میں کافی چرچا ہے۔ اس الیکشن کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 44 پولنگ سٹیشنوں پر امن کی خلاف ورزی کے خطرے کے پیش نظر 19 کمپنی نیم فوجی اور 6 کمپنی پی اے سی کی سوار، ٹانڈہ، عظیم نگر اور مِلک جیسے مقامات پر تعینات کی گئیں۔ رام پور کے ایس پی اشوک کمار شکلا نے دعویٰ کیا تھا کہ انتخابات میں کسی قسم کی گڑبڑی نہیں ہونے دی جائے گی۔ سبھی کی نظریں رام پور الیکشن پر مرکوز ہیں لیکن خاص بات یہ ہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو دونوں نے یہاں انتخابی مہم نہیں چلائی۔ سماج وادی پارٹی کی امیدوار انورادھا چوہان نے کہا تھا کہ اکھلیش یادو شہری انتخابات میں مصروف ہیں اور وہ الیکشن جیت رہی ہیں۔


سوار ضمنی انتخاب: اعظم خان کے لیے خود کو ثابت کرنے کی آخری جنگ! 13 تاریخ کو آئے گا نتیجہ
سوار ضمنی انتخاب: اعظم خان کے لیے خود کو ثابت کرنے کی آخری جنگ! 13 تاریخ کو آئے گا نتیجہ
سوار ضمنی انتخاب: اعظم خان کے لیے خود کو ثابت کرنے کی آخری جنگ! 13 تاریخ کو آئے گا نتیجہ
سوار ضمنی انتخاب: اعظم خان کے لیے خود کو ثابت کرنے کی آخری جنگ! 13 تاریخ کو آئے گا نتیجہ
سوار ضمنی انتخاب: اعظم خان کے لیے خود کو ثابت کرنے کی آخری جنگ! 13 تاریخ کو آئے گا نتیجہ

ٹانڈہ کے مقامی رہائشی حاجی فیاض کا کہنا ہے کہ مقامی لوگ اسمبلی انتخابات میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس سے حکومت کی پوزیشن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اعظم خان نے جس انداز میں تقریر کی وہ بہت جذباتی تھی۔ انہوں نے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ یہاں کے ووٹر بار بار کے الیکشن سے اکتا چکے ہیں اور اس کا ثبوت پولنگ فیصد کا کم ہونا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ الیکشن کے دوران 1022 لوگوں نے نوٹا کا بٹن استعمال کیا تھا۔ اس بار بھی پولنگ فیصد کم رہا ہے اور عبداللہ اعظم سے لوگوں کی ہمدردی کے باوجود صرف 44 فیصد لوگوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔

عظیم نگر کے محمد انس کا کہنا ہے کہ اعظم خان کا یہاں کی سیاست پر مکمل کنٹرول ہے لیکن اس کے باوجود یہاں اس سطح کی ترقی نہیں ہوئی۔ حالیہ دنوں میں مقامی لوگوں میں ناراضگی ہے اور وہ کئی دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اعظم خان کے حق میں اور مخالفت میں دونوں طرح کے لوگ ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ خود مسلم کمیونٹی میں ہے، جوکہ یہاں کی اکثریتی آبادی ہے۔ اعظم خان کے خلاف ہونے والی کارروائی پر ہمدردی ہے لیکن ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے ان کے اقتدار کے دنوں کو یاد کر کے ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ جہاں تک موجودہ الیکشن کا تعلق ہے تو اس میں اعظم خان کا پلڑا بھاری ہے، تاہم اس بار انہیں پہلے سے زیادہ سخت چیلنج ملا ہے۔ عبداللہ اعظم یہاں 2 بار رکن اسمبلی رہ چکے ہیں اور اب مقامی امیدوار کے حق میں ہیں۔ یہاں ایس پی امیدوار انورادھا چوہان خود کو اعظم خان کی ہندو بیٹی قرار دیتی ہیں۔


اپنا دل کے امیدوار شفیق انصاری کا کہنا ہے کہ اعظم خان نے سوار کے ایماندار لوگوں کو جذباتی باتوں میں الجھا کر دھوکہ دیا ہے اور یہ علاقہ پسماندہ رہ گیا ہے۔ مقامی لوگوں کو آدھار کارڈ، راشن کارڈ جیسے معمولی کام کے لیے بھی رام پور جانا پڑتا ہے۔ اعظم خان چاہتے ہیں کہ ہر بار لوگ ان کی چوکھٹ پر آ کر سلام کریں لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ اس الیکشن نے ایک نیا راستہ تلاش کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔