کسانوں کو سڑکوں سے ہٹانے کی عرضی پر سپریم کورٹ نے مرکز اور ریاستی حکومتوں سے کل تک مانگا جواب

سپریم کورٹ نے کسان تحریک پر مسئلہ حل کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کو کہا ہے۔ اس کمیٹی میں بھارتیہ کسان یونین و دیگر کسان تنظیموں اور مرکزی حکومت کے نمائندے رہیں گے۔

تتصویر قومی آواز/ویپن
تتصویر قومی آواز/ویپن
user

قومی آوازبیورو

مودی حکومت کے ذریعہ لائے گئے متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف سڑکوں پر اتری کسان تنظیموں کی تحریک کا آج اکیسواں دن ہے۔ کسان اور مرکزی حکومت کے درمیان شروع ہوئی یہ لڑائی اب سپریم کورٹ پہنچ گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے کسان تحریک کے دوران جاری رخنہ اندازی کو ختم کرنے کے لیے کمیٹی بنانے کا حکم دیا ہے۔ اس کمیٹی میں بھارتیہ کسان یونین و دیگر کسان تنظیموں اور مرکزی حکومت کے نمائندے شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ مظاہرین کو سڑکوں سے ہٹانے کی عرضی پر عدالت نے مرکزی حکومت، پنجاب اور ہریانہ حکومتوں و کسان تنظیموں کو بھی نوٹس جاری کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کل تک ان سے جواب مانگا ہے۔

تتصویر قومی آواز/ویپن
تتصویر قومی آواز/ویپن

سپریم کورٹ اس معاملے میں اب 17 دسمبر کو سماعت کرے گی۔ قابل ذکر ہے کہ اس تعلق سے لاء اسٹوڈنٹ رشبھ شرما نے عرضی داخل کی تھی۔ عرضی میں کہا گیا تھا کہ کسان تحریک کے سبب سڑکیں جام ہونے سے عوام پریشان ہو رہے ہیں۔ مظاہرہ والے مقامات پر سوشل ڈسٹنسنگ نہیں ہونے سے کورونا کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔ سماعت کے دوران عرضی دہندہ کے وکیل نے شاہین باغ معاملے کی دلیل دی جہاں عوامی مسائل کو دیکھتے ہوئے سڑک خالی کرانے کے لیے پیش رفت ہوئی تھی۔ اس دلیل پر چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے کہا کہ نظامِ قانون سے جڑے معاملے میں کوئی مثال نہیں دی جا سکتی۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں سے جواب طلب کیا ہے اور آگے کی کارروائی کل کیے جانے کی بات کہی ہے۔

تتصویر قومی آواز/ویپن
تتصویر قومی آواز/ویپن

آج سماعت کے دوران چیف جسٹس نے عرضی دہندہ کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں بارڈر کھول دیئے جائیں؟ اس پر وکیل نے کہا کہ عدالت نے شاہین باغ کیس کے وقت کہا تھا کہ سڑکیں جام نہیں ہونی چاہئیں۔ بار بار شاہین باغ کا حوالہ دینے پر چیف جسٹس نے وکیل کو ٹوکا۔ انھوں نے کہا کہ وہاں پر کتنے لوگوں نے راستہ روکا تھا؟ نظامِ قانون کے معاملوں میں مثال نہیں دی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے سماعت کے دوران یہ بھی پوچھا کہ کیا کسان تنظیموں کو کیس میں پارٹی بنایا گیا ہے۔

تتصویر قومی آواز/ویپن
تتصویر قومی آواز/ویپن

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔