’عصمت دری سے بچنے کے لیے گھر پر ہی رہیں‘، گجرات ٹریفک پولیس کے پوسٹر سے نیا تنازعہ شروع

گجرات کانگریس صدر امت چاؤڑا نے کہا کہ وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل کے ماتحت وزارت داخلہ اور پولیس گجرات کی بیٹیوں کی عوامی طور پر بے عزتی کر رہے ہیں اور اپنی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>گرافکس @INCGujarat</p></div>

گرافکس @INCGujarat

user

قومی آواز بیورو

گجرات کے احمد آباد شہر میں ٹریفک پولیس کے ذریعہ لگائے گئے پوسٹرس نے ایک نیا تنازعہ شروع کر دیا ہے۔ پوسٹر میں مبینہ طور پر خواتین سے گزارش کی گئی تھی کہ وہ عصمت دری سے بچنے کے لیے گھروں پر ہی رہیں۔ اب اس پوسٹر نے اپوزیشن پارٹیوں کو حکمراں بی جے پی پر حملہ کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ کانگریس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر یہ سوال پوچھ لیا ہے کہ ’’پولیس کا کام حفاظت کرنا ہے یا ڈرانا؟‘‘

جن پوسٹرس پر تنازعہ ہوا ہے، وہ احمد آباد میں کئی مقامات پر لگائے گئے تھے، جو تنازعہ کے بعد ہٹا لیے گئے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے ذریعہ اسپانسر ان پوسٹرس میں لکھا گیا تھا کہ ’’دیر رات پارٹیوں میں شامل نہ ہوں، آپ کے ساتھ عصمت دری یا اجتماعی عصمت دری ہو سکتی ہے۔‘‘ ایک پوسٹر میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ’’اپنے دوستوں کے ساتھ سنسان مقامات پر نہ جائیں، کہیں آپ کے ساتھ عصمت دری یا اجتماعی عصمت دری ہو گیا تو؟‘‘ سولا اور چنڈولیا علاقوں میں خاص طور سے ایسے پوسٹرس دیکھے گئے، جو اب ہٹائے جا چکے ہیں۔


گجرات کانگریس صدر امت چاؤڑا نے اس طرح کے پوسٹرس پر براہ راست گجرات حکومت پر حملہ کر دیا ہے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا ہے کہ ’’ریاست کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل کے ماتحت وزارت داخلہ اور پولیس گجرات کی بیٹیوں کی بے عزتی کر رہے ہیں اور اپنی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ وہ یہ مان رہے ہیں کہ گجرات میں بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں۔ شرم آنی چاہیے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’گجرات کے لوگ، جنھیں اس بات پر فخر ہے کہ ان کی بیٹیاں دیر رات بھی گربا کھیل کر تنہا گھر آتی ہیں، آج پولیس پوسٹر لگا کر یہ جانکاری دے رہی ہے کہ گجرات میں بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں، آپ کو خود اپنی بیٹیوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔‘‘

عآپ نے بھی اس معاملے میں ریاستی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ ’’ان پوسٹرس سے ریاست میں خواتین کی سیکورٹی سے متعلق دعووں کی قلعی کھل گئی ہے۔ گجرات میں بی جے پی حکومت خواتین کی خود مختاری کی بات کرتی ہے، لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔‘‘ عآپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ 3 سالوں میں ریاست میں عصمت دری کے 6500 سے زیادہ اور اجتماعی عصمت دری کے 36 واقعات پیش آئے ہیں۔ اس طرح ریاست میں روزانہ 5 سے زیادہ عصمت دری کے واقعات ہوئے۔


پولیس ڈپٹی کمشنر (ٹریفک مغرب) نیتا دیسائی نے ان پوسٹرس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شہر کی ٹریفک پولیس نے سڑک سیکورٹی سے متعلق پوسٹر اسپانسر کیے تھے، نہ کہ خواتین کی سیکورٹی سے متعلق۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ایک غیر سرکاری تنظیم نے ٹریفک پولیس کی اجازت کے بغیر یہ متنازعہ پوسٹرس لگا دیے تھے۔ وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ این جی او نے ہم سے رابطہ کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اسکولوں اور کالجوں میں ٹریفک بیداری پروگرام منعقد کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے ملازمین بھی ان کےس اتھ ہوں۔ ہمیں ٹریفک بیداری سے متعلق پوسٹر دکھائے گئے تھے۔ متنازعہ پوسٹر ہمیں نہیں دکھائے گئے اور ہماری اجازت کے بغیر چسپاں کر دیے گئے۔ نیتا دیسائی کا کہنا ہے کہ جب معاملہ جانکاری میں آیا تو سبھی پوسٹرس کو فوراً ہٹا دیے گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔