تریپورہ میں سیاسی تشدد پر ریاستی اسمبلی کا اظہار تشویش

بی جے پی کے ایم ایل اے شنکر رائے نے الزام لگایا کہ ٹیپرا موتھا کے بینر تلے سی پی آئی (ایم) کے کارکن قبائلی علاقوں میں تشدد پھیلا رہے ہیں اور کلاسی کا واقعہ ان میں سے ایک ہے۔

تصویر بشکریہ تریپورہ پوسٹ
تصویر بشکریہ تریپورہ پوسٹ
user

یو این آئی

اگرتلہ: تریپورہ کی قانون ساز اسمبلی نے بدھ کے روز ریاست میں بڑھتے ہوئے سیاسی تشدد پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ اسمبلی کے اراکین نے اس تشدد کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرنے اور قصورواروں کے خلاف فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔

اسمبلی میں وقفہ سوالات کے بعد حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایم ایل اے شنکر رائے نے ریاست میں بڑھتے ہوئے تشدد کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ منگل کے روز جنوبی تریپورہ میں جولائباڑی کے کلاسی میں بی جے پی کے کارکنوں اور پردیوت کشور کے ٹپرا موتھا کے کارکنان کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں دو پولیس افسران سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے اور بکھورا بازار میں کم از کم 20 دکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔


انہوں نے الزام لگایا کہ ٹیپرا موتھا کے بینر تلے سی پی آئی (ایم) کے کارکن قبائلی علاقوں میں تشدد پھیلا رہے ہیں اور کلاسی کا واقعہ ان میں سے ایک ہے۔ ایسے واقعات صرف جنوبی تریپورہ کے قبائلی علاقے میں ہی نہیں ہو رہے ہیں، تقریباً ہر روز ایسے واقعات منظر عام پر آ رہے ہیں جس سے ترقیاتی سرگرمیاں اور عام زندگی متاثر ہو رہی ہے۔ تاہم نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے والے جشنیو دیو ورما نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔

اطلاعات کے مطابق، TTAADC پر موتھا کے قبضہ کرنے کے بعد، بی جے پی کارکنوں نے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ پیدا کرنا شروع کر دیا۔ بی جے پی نے کلاسی گاؤں کے مختلف نزدیکی مراکز سے اپنے حامیوں کو لا کر کام پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں ٹپرا اور بی جے پی کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔


موتھا کے قائدین نے بی جے پی پر الزام عائد کیا کہ ریاستی حکومت اے ڈی سی کی ویلج کونسل کا انتخاب نہیں کروا رہی ہے لیکن بی جے پی کارکن اے ڈی سی علاقوں میں ہر طرح کے ترقیاتی کاموں کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں، جسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اے ڈی جی اتھارٹی نے انتخابات ہونے تک ریاستی سطح کی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے تاکہ ترقیاتی کام ہو سکے لیکن بی جے پی کارکنوں نے اسے قبول نہیں کیا جس سے انتشار پھیل گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔