بھگت سنگھ نے ایسے ہندوستان کا تصور نہیں کیا تھا جس میں مذہبی جنون کا غلبہ ہو: کانگریس

کانگریس نے یوم شہدا کے موقع پر بھگت سنگھ کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایسے ہندوستان کا تصور نہیں کیا تھا، جس میں توہم پرستی اور مذہبی جنون کا غلبہ ہو

راہل، پرینکا / آئی اے این ایس
راہل، پرینکا / آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: کانگریس نے یوم شہدا کے موقع پر بھگت سنگھ کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایسے ہندوستان کا تصور نہیں کیا تھا، جس میں توہم پرستی اور مذہبی جنون کا غلبہ ہو۔

شہید اعظم بھگت سنگھ کو یاد کرتے ہوئے کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا، ’’بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو وہ خیالات ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ظلم کے خلاف جب بھی کوئی آواز اٹھے گی تو اس آواز میں ان شہدا کا عکس ہوگا۔ جس دل میں ملک کے لئے جان دینے کا جذبہ پیدا ہوگا، اس دل میں ان تینوں بہادروں کے نام ہوں گے۔‘‘

کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ شہید بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کی شہادت ایک ایسے نظام کے خواب کے لئے تھی، جو تقسیم نہیں بلکہ مساوات پر مبنی ہو۔ جس میں اقتدار کا تکبر نہیں بلکہ شہریوں کے حقوق کو ترجیح دی جائے اور سب یکجا ہو کر ملک کا مستقبل تعمیر کریں۔ آئیں مل کر ان نظریات کو مضبوط کریں۔


دریں اثنا، کانگریس کے قومی جنرل سکریٹری رندیپ سنگھ سرجے والا نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ بھگت سنگھ نے اپنے آخری پیغام میں کہا تھا کہ ہندوستان میں جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک مٹھی بھر استحصالی اپنے مفاد کے لئے عام لوگوں کی محنت کا فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ استحصال کرنے والے برطانوی سرمایہ دار ہیں یا انگریزوں اور ہندوستانیوں کا اتحاد ہیں یا پوری طرح ہندوستانی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھگت سنگھ ایک ایسا نظریہ تھا جو استحصال، امتیازی سلوک اور ذہنی غلامی کے خلاف تھا۔ اس کے ذہن میں ایک ایسا نظام قائم کرنے کا خواب تھا جہاں ایک شخص دوسرے کا استحصال نہ کر سکے۔ جہاں نظریاتی آزادی ہو اور ذہنی غلامی کی کوئی جگہ نہ ہو۔ انسان کو انسان سمجھا جائے۔ جہاں انسانوں کو سماجی تحفظ کی ضمانت دی جائے۔


سرجے والا نے مزید لکھا، ’’یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ہم نے بھگت سنگھ کو صرف ایک برانڈ بنا دیا ہے اور ان کی سوچ کو مسترد کر دیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو نظریاتی اختلاف غداری نہ ہوتا، کسانوں اور مزدوروں کو سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کی کوئی سازش نہ رچی جاتی۔ مذہبی فکر انتخاب کا مسئلہ نہ ہوتی۔ جیت کی بنیاد محض ذات نہ ہوتی۔ لیڈر کا انتخاب کرتے وقت ہم اس کی پالیسی اور قابلیت کو دیکھتے نہ کہ اس کی ذات اور مذہب کو۔ کسی لیڈر یا پارٹی کی اتنی ہمت نہ ہوتی کہ وہ اپنی ذات بتا کر عوام سے ووٹ مانگتی۔

بھگت سنگھ کے ہندوستان میں یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ مہنگائی، بے روزگاری، استحصال، عدم مساوات، تفریق کتنی ہی کیوں نہ بڑھ جائے۔ عدم تحفظ اور نفرت کے سیاہ بادل کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں۔ پارلیمنٹ اور ادارے خواہ مفلوج ہو جائیں۔ آئین دھیرے دھیرے ایک زندہ کردار کے بجائے کتاب بن جائے اور توہم پرستی اور مذہبی جنون کا غلبہ ہو۔

بڑے افسوس کی بات ہے کہ جس بھگت سنگھ نے امتیازی سلوک اور ذات پات کی تقسیم کے خلاف انقلاب کی کال دی تھی، اسی امتیاز پر مبنی نظام کو مضبوط کرنے والے لیڈران خود کو بھگت سنگھ کے نظریے کا حقیقی وارث قرار دے کر عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔