پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس: مرکزی حکومت نے سونیا گاندھی کے خط کا دیا جواب، روایات کی طرف دلائی توجہ

پرہلاد جوشی نے کہا کہ ’’پہلے بھی کبھی اجلاس بلانے سے پہلے اپوزیشن پارٹیوں سے صلاح و مشورہ نہیں کیا گیا، یہ حکومت کا خصوصی استحقاق ہے۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>بی جے پی رکن پارلیمنٹ پرہلاد جوشی، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

بی جے پی رکن پارلیمنٹ پرہلاد جوشی، تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آوازبیورو

پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کو لے کر اس وقت اپوزیشن پارٹیاں خود کو تاریکی میں محسوس کر رہی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ابھی تک اجلاس کا ایجنڈا ظاہر نہیں ہوا ہے۔ اس سلسلے میں اپوزیشن اتحاد اِنڈیا میں شامل پارٹیوں کے لیڈران کی میٹنگ بھی ہو چکی ہے اور کانگریس کی سابق صدر و رکن پارلیمنٹ سونیا گاندھی نے تو مرکزی حکومت کو خط تک لکھ دیا۔ اب حکومت نے اس خط کا جواب دیا ہے۔

ہندی نیوز پورٹل ’اے بی پی لائیو‘ پر شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مرکزی وزیر برائے پارلیمانی امور پرہلاد جوشی نے سونیا گاندھی کے خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’یہ افسوسناک ہے کہ آپ کی توجہ روایات کی طرف نہیں ہے۔ اجلاس شروع ہونے سے پہلے بات چیت کی جائے گی۔‘‘ جوابی خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’’یہ بے حد افسوسناک ہے کہ آپ پارلیمنٹ، ہماری جمہوریت کے مندر کی کارروائی کو بھی سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، آرٹیکل 85 کے تحت آئینی مینڈیٹ پر عمل کرتے ہوئے پارلیمانی اجلاس مستقل طور سے منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہ التزام کرتا ہے کہ صدر جمہوریہ وقت وقت پر پارلیمنٹ کے ہر ایوان کو ایسے وقت اور جگہ پر، جو وہ مناسب سمجھے، اجلاس کے لیے طلب کرے گا۔ لیکن اس کے ایک اجلاس کی آخری میٹنگ اور آئندہ اجلاس کی پہلی میٹنگ کے لیے مقرر تاریخ کے درمیان 6 ماہ کا وقفہ نہیں ہوگا۔‘‘


جوابی خط میں پرہلاد جوشی یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’مناسب طریقہ کار پر مکمل عمل کرتے ہوئے ہی پارلیمانی کارروائی سے متعلق کابینہ کمیٹی کی سفارش کے بعد صدر جمہوریہ کے ذریعہ 18 ستمبر سے شروع ہونے والے پارلیمانی اجلاس کو بلایا گیا ہے۔ شاید آپ کی توجہ روایات کی طرف نہیں ہے۔ پارلیمانی اجلاس بلانے سے پہلے نہ کبھی سیاسی پارٹیوں سے بات کی جاتی ہے اور نہ کبھی ایشوز پر بحث کی جاتی ہے۔ عزت مآب صدر کے اجلاس بلانے کے بعد اور اجلاس شروع ہونے کے پہلے سبھی پارٹیوں کے لیڈران کی میٹنگ ہوتی ہے جس میں پارلیمنٹ میں اٹھنے والے ایشوز اور کارروائی پر بحث ہوتی ہے۔‘‘

خط میں آگے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’’میں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ ہماری حکومت کسی بھی ایشو پر ہمیشہ بحث کے لیے تیار رہتی ہے۔ ویسے تو آپ نے جن ایشوز کا تذکرہ کیا ہے، وہ سبھی ایشوز عدم اعتماد کی تحریک پر بحث کے دوران کچھ ہی وقت قبل مانسون اجلاس کے دوران اٹھائے گئے تھے اور حکومت کے ذریعہ ان پر جواب بھی دیا گیا تھا۔‘‘ پرہلاد جوشی مزید لکھتے ہیں ’’اجلاس کا وَرک شیڈول ہمیشہ کی طرح استعمال طریقہ کے مطابق مناسب وقت پر بتایا جائے گا۔ میں یہ بھی پھر سے توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے پارلیمانی طریقہ کار میں چاہے حکومت کسی بھی پارٹی کی رہی ہو، آج تک پارلیمنٹ بلانے کے وقت وَرک شیڈول پہلے سے کبھی بھی طے نہیں کیا گیا۔‘‘


جوابی خط کے آخر میں پرہلاد جوشی لکھتے ہیں کہ ’’مجھے پورا یقین ہے کہ پارلیمنٹ کا وقار برقرار رہے گا اور اس پلیٹ فارم کا استعمال سیاسی تنازعوں کے لیے نہیں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ میں آئندہ اجلاس کو بہتر انداز سے چلانے میں آپ کے تعاون کی امید کرتا ہوں، تاکہ قومی مفاد میں مثبت نتائج سامنے آ سکیں۔‘‘ ساتھ ہی پرہلاد جوشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’پہلے بھی اجلاس بلانے سے پہلے اپوزیشن پارٹیوں سے صلاح و مشورہ نہیں کیا گیا۔ یہ حکومت کا خصوصی استحقاق ہے۔ اس سے پہلے کبھی بھی جب دیگر حکومتیں تھیں، ایجنڈے کا پہلے سے انکشاف نہیں کیا گیا۔‘‘

واضح رہے کہ اس سے قبل سونیا گاندھی نے اپوزیشن اتحاد اِنڈیا کی طرف سے 9 ایشوز کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی کو ایک خط لکھا تھا۔ اس خط میں سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ حزب اختلاف 9 مسائل پر بات چیت چاہتی ہے اور یہ مسائل ہیں مہنگائی، ایم ایس ایم ای، بے روزگاری، کسانوں کے مطالبات، اڈانی مسئلہ پر جے پی سی کا مطالبہ، ذات پر مبنی مردم شماری، مرکز-ریاست کے تعلقات، چین سرحد اور سماجی ہم آہنگی۔


سونیا گاندھی اپنے خط میں لکھتی ہیں کہ ’’اپوزیشن کو خصوصی اجلاس کے ایجنڈے کا علم نہیں ہے۔ عام طور پر خصوصی اجلاس سے پہلے بات چیت ہوتی ہے اور اتفاق رائے قائم کیا جاتا ہے۔ اس کا ایجنڈا بھی پہلے سے طے ہوتا ہے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اجلاس طلب جا رہا ہے اور ایجنڈا طے نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔‘‘ کانگریس کی سابق صدر نے خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’’خصوصی اجلاس کے سبھی پانچ دن گورنمنٹ بزنس کے لیے مختص کیے گئے ہیں، جو کہ افسوسناک ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔