’سوز نہ تو زیرِ حراست ہیں اور نہ ہی نظر بند‘ رہائی سے متعلق عرضی کا تصفیہ

جسٹس مشرا نے کہا کہ ’’جموں و کشمیر انتظامیہ کے جواب کے بعد اس مقدمے کو جاری رکھنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ہم اب یہ معاملہ بند کرتے ہیں۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر سیف الدین سوز کی رہائی سے متعلق عرضی پر بدھ کو فیصلہ کر دیا۔ جسٹس ارون کمار مشرا کی سربراہی والی ڈیویژن بنچ نے کانگریسی رہنما کی اہلیہ ممتازالنسا کی پروانہ حاضری ملزم کی عرضی کو، جموں و کشمیر انتظامیہ کے اس جوابی حلف نامے کے بعد نمٹا دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ پروفیسر سوز نہ تو حراست میں ہیں اور نہ ہی نظر بند رکھے گئے ہیں۔

جسٹس مشرا نے کہا کہ ’’جموں و کشمیر انتظامیہ کے جواب کے بعد اس مقدمے کو جاری رکھنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ہم اب یہ معاملہ بند کرتے ہیں۔‘‘ عرضی گزار کی جانب سے پیش سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے جموں و کشمیرانتظامیہ کے جواب کی مخالفت کی۔


انہوں نے کہا،’’ایک علی الصبح مجھے (پروفیسر سوز کو) حراست میں لے لیا جاتا ہے اور جواب میں انتطامیہ یہ کہہ دیتا ہے کہ وہ حراست میں نہیں ہیں۔ وہ آزاد ہیں۔‘‘ جسٹس مشرا نے کہا، ’’انتطامیہ کا کہنا ہے کہ پروفیسر سوز نے اس دوران سفر بھی کیا ہے۔‘‘ اس پر منو سنگھوی نے کہا کہ سابق مرکزی وزیر کی طبیعت خراب تھی اور اسپتال جانے کے لئے وہ باہر نکلے تھے، لیکن جسٹس مشرا ان کے جواب سے مطمئین نہیں ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اب اس معاملے کی سماعت بند کی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ جموں و کشمیر کے خصوصی اختیارات سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر التزامات اور آرٹیکل 35 اے کو مسترد کیے جانے کے پیش نظر اس وقت کی ریاست کے کئی رہنماؤں کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 107 کے تحت نظر بند کردیا گیا تھا۔ کچھ رہنماؤں کو چھ ماہ گزر جانے کے بعد پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت پھر سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔