’کیا نریندر مودی کو بھی یاترا نکالنی چاہیے؟‘ مبصرین کا چشم کشا جواب... سہیل انجم

ایک مبصر نے کہا کہ راہل گاندھی نے نفرت کے ماحول کو اس طرح مٹا دیا ہے کہ جیسے چراغ تاریکی کو ختم کر دیتا ہے۔

نریندر مودی، تصویر یو این آئی
نریندر مودی، تصویر یو این آئی
user

سہیل انجم

اس وقت ہندوستان میں اگر کوئی موضوع میڈیا اور عوام میں چھایا ہوا ہے تو وہ بلا شبہ کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق صدر راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا ہے۔ اس یاترا کی شہرت اب ملکی حدود سے نکل کر دوسرے ملکوں تک بھی پہنچ گئی ہے اور بین الاقوامی میڈیا بھی اس کی خاصی کوریج کر رہا ہے۔ جس وقت یہ یاترا شروع ہوئی تھی اس وقت بھی اسے بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہوئی تھی۔ لیکن وقت کے گزرنے اور منزل مقصود کے قریب سے قریب تر ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت و مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے اور مقبولیت کا گراف چڑھتا چلا جا رہا ہے۔ راہل گاندھی کی اس یاترا نے کانگریس کے کارکنوں اور رہنماوں میں ایک نیا جوش پیدا کر دیا ہے اور اب تو وہ لوگ دوبارہ کانگریس میں واپس آ رہے ہیں جو اسے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

اس صورت حال اور راہل گاندھی کی مقبولیت میں اضافے اور ان کی امیج میں مثبت تبدیلی سے حکومت، بی جے پی اور آر ایس ایس میں گھبراہٹ پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت اور بی جے پی اور دیگر شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے تو راہل کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن آر ایس ایس نے بڑی چالاکی سے یاترا کی حمایت کر دی ہے۔ رام مندر ٹرسٹ کے چیئرمین چمپت رائے نے یہ کہہ کر کہ ایک نوجوان اس سردی میں ملک میں یاترا کر رہا ہے لہٰذا اس یاترا کی حمایت کی جانی چاہیے اور یہ کہ آر ایس ایس نے کبھی بھی اس یاترا کی مذمت نہیں کی، یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ نفرت اور خوف کے خلاف ہے۔ لیکن دراصل یہ آر ایس ایس کا خوف ہے جس کا اظہار یاترا کی حمایت کی شکل میں ہوا ہے۔ اگر وہ مخالفت کرتا تو بے نقاب ہو جاتا۔


اسی طرح رام جنم بھومی مندر کے ہیڈ پجاری آچاریہ ستیندر داس نے تو تحریری شکل میں یاترا کی حمایت کی اور راہل گاندھی کو آشیرواد دیا۔ انھوں نے راہل کے نام ایک خط میں کہا کہ وہ صحت مند رہیں اور طویل عمر پائیں۔ ان پر رام للا کی کرپا ہمیشہ بنی رہے۔ دراصل آچاریہ سیندر داس کا تعلق نہ بی جے پی سے ہے، نہ آر ایس ایس سے ہے اور نہ ہی وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل سے ہے۔ لہٰذا ان کی حمایت اور آشیرواد کو ساسی چالبازی نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ سچائی یہ ہے کہ وہ آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کے خلاف ہیں۔ لہٰذا انھوں نے جو کچھ کہا ہے اس میں خلوص کی آمیزش ہے۔ لیکن ان کے آشیرواد نے وشو ہندو پریشد کے پیٹ میں مروڑ پیدا کر دیا ہے۔

اس تمام صورت حال کے درمیان ایک سوال یہ اٹھایا گیا کہ جس طرح راہل گاندھی بھارت جوڑو یاترا کر رہے ہیں اور خوف اور نفرت کی جگہ پر محبت کا پیغام پھیلا رہے ہیں کیا وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی اسی قسم کی کوئی یاترا کرنی چاہیے۔ یہ سوال دراصل ایک یوٹیوب چینل پر اٹھایا گیا۔ اینکر نے پانچ ایسے مبصرین کے پینل کے سامنے جو انتہائی سینئر صحافی اور دانشور مانے جاتے ہیں، یہ سوال رکھا۔ اس سوال پر جو تبصرے ہوئے وہ چشم کشا ہیں۔ ان تبصروں سے یہ اندازہ ہوا کہ تعلیم یافتہ اور دانشور طبقہ موجودہ حکومت، آر ایس ایس، بی جے پی اور خود وزیر اعظم کے تعلق سے کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا۔


تقریباً تمام صحافیوں نے بیک زبان کہا کہ خدا کرے کہ مودی یا بی جے پی یا آر ایس ایس کا کوئی شخص یاترا نہ نکالے۔ کیونکہ سنگھ پریوار کے جو نظریات ہیں وہ محبت کو فروغ دینے کے بجائے نفرت کو فروغ دینے والے ہیں۔ اس کے نظریات عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرکے اپنا الو سیدھا کرنے والے ہیں۔ اگر یہ لوگ کوئی یاترا نکالیں گے تو وہ نفرت اور خوف و ہراس میں اضافہ کرے گی محبت میں نہیں۔ اس تعلق سے انھوں نے تاریخ پر بھی نظر ڈالی اور بی جے پی کے سینئر رہنما ایل کے آڈوانی کی یاترا کا بطور خاص حوالہ دیا۔

انھوں نے کہا کہ ایک موقع تھا جب بابری مسجد کے خلاف سنگھ پریوار کی جانب سے تحریک چلائی گئی۔ اس تحریک کے دوران ایل کے آڈوانی نے ستمبر اکتوبر 1990 میں سومناتھ سے ایودھیا تک کی رتھ یاترا نکالی تھی۔ اس رتھ کے سارتھی اس وقت کے بی جے پی لیڈر اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی تھے۔ یہ یاترا جہاں جہاں سے گزری وہاں وہاں فسادات ہوئے۔ وہ خون کی لکیریں کھینچتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔ وہ تو اچھا ہوا کہ اس وقت کے بہار کے وزیر اعلیٰ لالو یادو نے سمستی پور میں اس یاترا کو روک دیا اور آڈوانی کو گرفتار کر لیا۔ ورنہ اگر یاترا ایودھا تک جانے میں کامیاب ہوئی ہوتی تو جانے کتنی انسانی جانیں اور ضائع ہوئی ہوتیں۔


ان مبصرین نے کہا کہ بی جے پی کے سابق صدر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی نے بھی کنیا کماری سے کشمیر تک یاترا نکالی تھی۔ ان کی یاترا نے بھی کوئی خوشگوگر اثر نہیں چھوڑا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ دونوں یاتراؤں میں محبت کی بات کا کہیں گزر ہی نہیں تھا۔ جب آپ ایک خاص مذہب کی علامت کو استعمال کریں گے اور ٹویوٹا گاڑی کو رتھ کی شکل دیں گے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ دوسرے مذاہب کے خلاف کام کر رہے ہیں اور ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے دلوں میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کے خلاف نفرت پیدا کر رہے ہیں۔

ان دانشوروں نے زور دے کر کہا کہ بھگوان کرے کہ مودی وغیرہ کے دل میں یاترا نکالنے کا خیال نہ آئے ورنہ ملک میں فسادات ہونے لگیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ آڈوانی کی رتھ یاترا کے اصل حکمت ساز نریندر مودی ہی تھے۔ ذرا سوچیے کہ اُس وقت جبکہ اقلیتوں کے خلاف ماحول اس قدر خراب نہیں ہوا تھا اس کے باوجود جگہ جگہ فسادات ہوئے تھے۔ آج تو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ہندووں کے بڑے طبقے کے ذہنوں میں زہر بھر دیا گیا ہے۔ اگر آج بی جے پی کا کوئی لیڈر یاترا نکالے گا تو وہ اس ماحول کو اور بھی زہریلا بنانے کی کوشش کرے گا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ یہ لوگ کوئی یاترا نہ نکالیں۔


دو ایک تجزیہ کاروں نے تو خوب چٹکی لی۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی تو بھکتوں کے نزدیک بھگوان کے اوتار ہیں۔ بہت سے تعلیم یافتہ افراد اور یہاں تک کہ آئی اے ایس اور آئی پی ایس بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ مودی بھگوان کے اوتار ہیں۔ مودی بھی خود کو اوتار ہی سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ایک اوتار کو یاترا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تو ہندوستان کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایک اوتار مل گیا جو اس وقت حکومت کر رہا ہے اور جس نے اس کو وشو گرو بنا دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ وشو گرو لوگوں کو ملازمتیں نہیں دے پا رہا ہے۔ روزگار نہیں دے پا رہا ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں لاکھوں افراد کا روزگار چھن گیا ہے۔ ملازمتیں چلی گئی ہیں۔ اسی کروڑ لوگ بھوکے ہیں۔ لیکن یہی کیا کم ہے کہ ایک اوتار حکومت کر رہا ہے۔

اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر غریب اور غریب اور امیر اور امیر ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک کی دولت چند دھنا سیٹھوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ غریبوں کی محنت کی کمائی دولت مند افراد لوٹ کر دوسرے ملکوں میں فرار ہو رہے ہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر کالے دھن کی واپسی کے بجائے اس میں اور اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ملکی صنعتیں ٹھپ ہوتی جا رہی ہیں۔ بھارت تو وشو گرو بن گیا ہے نا۔ لہٰذا اس وشو گرو کے جنم داتا کو یاترا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔


ایک مبصر نے کہا کہ راہل گاندھی نے نفرت کے ماحول کو اس طرح مٹا دیا ہے کہ جیسے چراغ تاریکی کو ختم کر دیتا ہے۔ انھوں نے اس سوال پر بھی اظہار خیال کیا کہ راہل کو سردی کیوں نہیں لگ رہی ہے اور کیا وجہ ہے کہ یو پی کے نائب وزیر اعلیٰ نے اس معاملے پر ریسرچ کرانے کا اعلان کیا۔ مذکورہ دانشور کے بقول راہل گاندھی کے اندر تین تین وزرائے اعظم کا ڈی این اے ہے۔ ان کے خاندان کے دو دو وزرائے اعظم ملک کے لیے شہید ہوئے ہیں۔ آر ایس ایس، بی جے پی اور شدت پسند ہندو تنظیموں کے لوگ ان کا کیا مقابلہ کر پائیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔