ممتاز اداروں میں پلیسمنٹ کی گراوٹ، جے رام رمیش کا مودی حکومت پر سخت حملہ
کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے پارلیمانی رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ آئی آئی ٹی، این آئی ٹی، ٹرپل آئی ٹی جیسے اعلیٰ اداروں میں پلیسمنٹ میں شدید گراوٹ بیروزگاری کے بحران کا اشارہ ہے

جے رام رمیش / آئی اے این ایس
نئی دہلی: کانگریس کے سینئر لیڈر اور رکن پارلیمنٹ جے رام رمیش نے ہندوستان کے ممتاز تعلیمی اداروں میں پلیسمنٹ کے گرتے ہوئے اعداد و شمار پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے آج ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کی مستقل کمیٹی برائے تعلیم، خواتین، بچوں، نوجوانوں اور کھیل نے اپنی 364ویں رپورٹ میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نوکریوں کے مواقع میں واضح کمی کو نوٹ کیا ہے، جو ملک میں بڑھتی بیروزگاری کی عکاسی کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، سال 2021-22 سے 2023-24 کے درمیان ملک کے 23 میں سے 22 آئی آئی ٹیز میں پلیسمنٹ کی شرح میں کمی آئی ہے، جن میں سے 15 اداروں میں 10 فیصد سے زیادہ گراوٹ درج کی گئی۔ 2021-22 میں 90.43 فیصد بی ٹیک طلبہ کو نوکری ملی تھی، جبکہ 2023-24 میں یہ شرح گھٹ کر 80.25 فیصد رہ گئی۔
اسی طرح، 25 میں سے 23 آئی آئی آئی ٹی میں بھی پلیسمنٹ کی شرح کم ہوئی ہے۔ ان میں سے 16 اداروں میں 10 فیصد سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی۔ این آئی ٹی میں بھی حالات کچھ مختلف نہیں۔ 31 میں سے 27 اداروں میں فارغ التحصیل انجینئروں کو دیے جانے والے اوسط تنخواہ پیکج میں کمی آئی ہے، جن میں سے تین اداروں میں کمی 3 لاکھ روپے سالانہ سے زیادہ رہی۔
جے رام رمیش نے کہا کہ آئی آئی ٹی جیسے ادارے نہ صرف ملک کے ذہین ترین طلبہ کو داخلہ دیتے ہیں، بلکہ ان کے اساتذہ بھی ممتاز ہوتے ہیں۔ اگر ان اداروں سے فارغ التحصیل ہر پانچ میں سے ایک طالب علم بھی نوکری حاصل نہ کر سکے تو یہ بہت تشویشناک بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ این آئی ٹی اور ٹرپل آئی ٹی جیسے اداروں میں بھی پلیسمنٹ کے یہ اعداد و شمار روزگار کے شعبے میں جمود کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
جے رام رمیش نے مزید کہا کہ حکومت کے وقتاً فوقتاً جاری کیے گئے لیبر فورس سروے بھی اسی رجحان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کانگریس کئی سالوں سے بڑے پیمانے پر بیروزگاری اور اجرتوں میں جمود کا مسئلہ اٹھاتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ مسئلہ صرف غیر رسمی شعبے یا دیہی علاقوں تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ بحران ملک کے سب سے ممتاز تعلیمی اداروں تک پہنچ چکا ہے، جو مودی حکومت کی پالیسیوں کی ناکامی کا ثبوت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔