عالمی وبا کے دوران ’تعلیم پر لگا تالا‘، اسکول بند ہونے کے تباہ کن نتائج برآمد

تقریباً ڈیڑھ سال سے بند اسکولوں سے متعلق کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ اس دوران دیہی علاقوں کے 37 فیصد بچوں نے اسکول چھوڑ دیا ہے اور صرف 8 فیصد بچے آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے ہندوستان میں اسکول بند ہیں، جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ غریب بچوں کے درمیان کیے گئے ایک سروے میں سامنے آیا ہے کہ تقریباً 37 فیصد بچوں تعلیم سے بالکل الگ ہو گئے ہیں، اور جو بچے پڑھ رہے ہیں ان میں سے نصف سے زائد چند ایک لفظوں کے آگے نہیں پڑھ پاتے۔ صرف 8 فیصد بچے ہی باضابطہ طور سے آن لائن پڑھائی کر پا رہے ہیں۔ سروے کے مطابق بیشتر سرپرست چاہتے ہیں کہ اسکول جلد از جلد کھل جائیں۔

اسکول چلڈرن آف لائن اینڈ آن لائن لرننگ اسکول سروے کی ایمرجنسی رپورٹ بے حد حیران کرنے والی ہے۔ اس سال اگست ماہ میں 15 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں میں کرائے گئے اس سروے میں آسام، کوچ بہار، چنڈی گڑھ، دہلی، گجرات، جھارکھنڈ، ہریانہ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، اڈیشہ، پنجاب، گجرات، تمل ناڈو، اتر پردیش اور مغربی بنگال کے بچوں کو شامل کیا گیا۔ سروے میں نسبتاً بنیادی سہولیات سے محروم گاؤں اور علاقوں کو شامل کیا گیا جہاں بیشتر بچے سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں۔


یہ سروے مشہور و معروف ماہر معیشت جیاں دریز کی نگرانی میں کیا گیا ہے۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ یہ اسکولوں کا اب تک کا سب سے طویل مدتی بند ہے۔ اس کا اثر صاف دکھائی پڑ رہا ہے۔ اس دوران شہری علاقوں کے 19 فیصد بچے اور 37 فیصد دیہی بچے پڑھائی چھوڑ چکے ہیں یا بالکل بھی نہیں پڑھ رہے ہیں۔ سروے میں سامنے آیا ہے کہ دیہی علاقوں میں نصف فیملی کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہے۔ جن فیملی کے پاس فون ہے بھی تو ان کے پاس انٹرنیٹ کنکشن نہیں ہے، یا ڈاٹا پیک کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

سروے میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران اسکول فیس دینے میں معذوری کے سبب تقریباً 26 فیصد ایسے بچے سرکاری اسکولوں میں چلے گئے تھے جنھوں نے پہلے پرائیویٹ اسکولوں میں داخلہ لے رکھا تھا۔ لیکن اب بھی کئی طلبا پرائیویٹ اسکولوں میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ اسکول ٹرانسفر سرٹیفکیٹ دینے سے پہلے پوری فیس ادا کرنے پر زور دے رہے ہیں۔


اسکول بند رہنے کا ایک اثر یہ بھی سامنے آیا ہے کہ بچوں کے تغذیہ پر بھی اثر پڑا ہے۔ قابل غور ہے کہ مرکزی حکومت نے ریاستوں کو خوردنی اشیاء اور رقم کی شکل میں مڈ ڈے میل کے متبادل دستیاب کرانے کا حکم دیا تھا، لیکن سروے میں زمینی حقیقت سامنے آ گئی، جس میں مڈ ڈے میل کی تقسیم ناکافی دیکھنے کو ملی۔ سرکاری اسکولوں کے تقریباً 20 فیصد شہری اور 14 فیصد دیہی طلبا کو مڈ ڈے میل ملا ہی نہیں۔

سروے میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ساکول بند رہنے کے سبب بچوں کی پڑھنے کی صلاحیت اور قابلیت بے حد متاثر ہوئی ہے۔ اس کے لیے بچوں سے ایک عام جملہ بڑے حروف میں لکھ کر پڑھوایا گیا۔ سا میں لکھا تھا ’’جب سے کورونا وبا چل رہی ہے، تب سے اسکول بند ہے‘۔ اس عمل کے حیران کرنے والے نتیجے سامنے آئے۔ گریڈ 3 سے 5 میں پڑھنے والے بچے چند ایک لفظوں کے آگے کچھ نہیں پڑھ پائے۔ دیہی علاقوں میں تو 42 فیصد بچے اس جملے کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھ پائے۔ اس ٹیسٹ میں گریڈ 2 کے بچوں کی حالت تو بہت ہی خراب رہی۔ شہری علاقوں کے 65 فیصد اور دیہی علاقوں کے 77 فیصد بچے تو ایک دو حروف سے آگے پڑھ ہی نہیں سکے۔ یہاں غور کرنے والی بات ہے کہ ان میں زیادہ تر بچے ایسے ہیں جو کبھی اسکول جا ہی نہیں سکے، کیونکہ ان کا داخلہ اسکولوں کے بند ہونے کے دوران ہوا تھا۔


سروے میں حیران کرنے والی یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بیشتر بچے وہ سب کچھ بھول چکے ہیں جو انھوں نے پہلے پڑھا تھا۔ سرپرستوں نے بھی مانا کہ ان کے بچوں کی پڑھنے لکھنے کی صلاحیت کم ہو گئی ہے۔ یہاں تک کہ شہری علاقوں کے 65 فیصد سرپرست بھی ایسا مانتے ہیں کہ آن لائن تعلیم سے ان کے بچوں کی پڑھنے لکھنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔

حالات کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے اسکولی طلبا کی خواندگی کا موازنہ 2011 سے کیا گیا۔ 2011 میں بہار کے علاوہ سبھی ریاستوں کی اسکولی خواندگی شرح 88 سے 99 فیصد کے درمیان تھی۔ بہار میں یہ شرح 83 فیصد تھی۔ قومی اوسط 91 فیصد تھا۔ لیکن اب 14-10 عمر والے گروپ کے بچوں کی خواندگی شرح شہری علاقوں میں گر کر 74 فیصد اور دیہی علاقوں میں گر کر 66 فیصد رہ گئی ہے۔ علاوہ ازیں دیہی دلت اور قبائلیوں کے درمیان شرح خواندگی گر کر 61 فیصد رہ گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔