کانگریس کا ہندی بیلٹ میں پھر سے کھڑا ہونا نہایت ضروری

مقامی سطح پر کارکنان کے ڈھانچہ کو فروغ دے کر زمینی رہنماؤں کو تیار کر کے ہندی بیلٹ میں کانگریس کو پھر کھڑا کیا جا سکتا ہے، ایسا کرنا نہ صرف پارٹی بلکہ جمہوریت کے لئے بھی ضروری ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بدری نارائن

ہندی بیلٹ کی ریاستوں کو اکثر اکائی سمجھ لیا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔ بہار، مدھیہ پردیش، اتر پردیش کے حوالہ سے لفظ بیمارو کافی مشہور ہوا تھا اور ہریانہ دراصل تاریخی اور سماجی حالات سے اس کے ساتھ منسلک ہے۔ آبادی کی زیادہ کثافت کے ساتھ پسماندہ یہ بیلٹ آزادی کے پہلے جنگ کی گواہ رہی ہے، جو سماجی حقیقتوں کے مساوی ہے اور ہجرت میں اضافہ کرنے والی ہیں۔

یہاں عام طور ہندی ضرور بولی جاتی ہے لیکن ان ریاستوں میں سے ہر ریاست میں بولی جانے والی ہندی کی اپنی مقامی خصوصیات ہیں جو بھوجپوری، مگہی، میتھلی، بندیلی، بگھیلی اور ہریانوی وغیرہ بولیوں سے متاثر ہوئی ہے۔ اس نے اپنے علاقہ میں سماجی و سیاسی سوچ کو نئے سرے سے گڑھا ہے۔ اس لئے ہندی زبان کی ان ریاستوں کو ایک اکائی کے طور پر دیکھنا غلط ہے۔

جنگ آزادی کے دوران اور بعد میں بھی اس علاقہ کو کانگریس کے اصولوں کو اپنانے میں بہت کم پریشانی ہوئی۔ اسے سماجی تحریک نے چیلنج دیا جو اسی علاقہ میں پیدا ہوا اور طاقتور ہوا۔ بعد کے سالوں میں ہندوتوا کی قسمیں کھانے والی جماعتوں اور تنظیموں کا بھی یہاں اثر ہوا۔

بہرحال، ہندی بیلٹ میں کانگریس 80 اور 90 کی دہائی میں کمزور ہونی شروع ہوئی۔ برہمن اور اعلیٰ ذات، مسلمان اور دلت لمبے وقت تک کانگریس کی بنیاد رہے۔ بعد میں مذہبی جنون اور ذاتیاتی ٹکراؤ کی وجہ سے کانگریس سے دور ہوتے گئے اور دوسری جماعتوں کا دامن تھامتے رہے۔

کافی وقت سے کانگریس اس علاقہ میں اپنی کھوئی ہوئی زمین دوبارہ سے حاصل کرنے کے لئے کوششیں کر رہی ہے۔ تین دہائیوں بعد پٹنہ میں منعقد عوامی جلسہ میں پارٹی کا اعتماد اور عزم صاف نظر آیا۔

اتر پردیش میں بھی وہ اپنے مضبوط قدم آگے بڑھاتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ پرینکا گاندھی کی آمد اور ان کو مغربی اتر پردیش میں پارٹی کو پھر سے کھڑا کرنے کی ذمہ داری دینا ایک اور اشارہ ہے کہ پارٹی اس سمت میں کافی سنجیدہ ہے۔ لیکن صرف اسی سے کام نہیں چلے گا، کانگریس کے رہنماؤں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہندی بیلٹ ذاتیاتی طور پر جہاں بٹی ہوئی ہے وہیں ہر طبقہ بھی اہم ہے۔

حالانکہ مزدور، کسان اور متوسط طبقہ ایک گروپ نہیں ہے۔ ایک تو وہ کسان ہیں جن کے پاس زمین ہیں لیکن ایسے کسانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو زمین سے محروم ہیں۔ ان میں فرق کرنا ضروری ہے کیوں کہ قرض معافی جیسی رعایتیں زمین والے کسانوں کو متوجہ کر سکتی ہیں لیکن زمین سے محروم کسانوں کی توجہ اس میں کم ہوتی ہے۔

ایک ایسی حکمت عملی کو تلاش کرنا جو آسان اور مقبول ہو ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کا سب سے اچھا داؤ ذات اور فرقہ کے اتحاد کو قائم کرنا ہے۔ حالانکہ برہمن، مسلمان اور دلتوں میں اپنی پرانی بیناد کو از سر نو زندہ کرنا ایک ابتدائی مرحلہ ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ ان طبقات، ذیلی طبقات اور ذیلی ذاتوں کے طور پر بہت سی پرتیں ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں اور یقیناً وہ اٹوٹ گروپ نہیں ہیں۔

مثال کے طور پر بہار میں دلت، چمار، دوسادھ، مسہر وغیر میں بٹے ہوئے ہیں۔ حالانکہ رام ولاس پاسوان اور جیتن رام مانجھی کو دوسادھوں اور مسہروں کے بیچ اچھی مقبولیت حاصل ہے، کانگریس کو دیگر رہنما پیدا کرنے اور ان طبقات میں رسائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح اتر پردیش میں دلتوں کو اپنے حق میں کرنے کے لئے بی ایس پی کی سماجی بنیاد میں اپنی جگہ بنانے کی ضرورت ہے۔ یو پی میں دلتوں کے درمیان مایاوتی کے خلاف بڑھتی مخالفت کے ساتھ اور دلت نوجوانوں کو متاثر کرنے والے چندر شیکھر جیسے نوجوان رہنماؤں کے ساتھ نیا اتحاد اتر پردیش میں جاٹووں کے ایک طبقہ کو اپنے حق میں کرنے میں کانگریس کے لئے مددگار ہو سکتا ہے۔

دراصل برہمنوں اور مسلمانوں میں اپنی مقبولیت حاصل کرنا زیادہ آسان ہو سکتا ہے۔ ہندی بیلٹ میں کانگریس کی مقبولیت ختم ہونے کے پیچھے کی وجوہات میں سے ایک زمینی سطح پر اس کے ڈھانچے کا منہدم ہو جانا رہا ہے۔ اس ڈھانچے کو از سر نو کھڑا کرنا اور زمینی رہنماؤں کو تیار کر کے پارٹی کو دوبارہ کھڑا کیا جاسکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 10 Feb 2019, 10:10 AM