انتخابی نتائج: بادل چھٹے تو ہیں لیکن خطرہ ٹلا نہیں... ظفر آغا

اب ہندوستانی نریندر مودی سے ناراض ہے۔ اس کی جھلک راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں نظر آئی۔ امید تو یہ ہے کہ سنہ 2019 میں نریندر مودی اقتدار سے باہر ہوں گے۔ لیکن خطرہ ابھی پوری طرح ٹلا نہیں ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

شعر سے مضمون کی شروعات کرنا میری آدت نہیں۔ لیکن کیا کیجیے کہ جب سے راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے نتیجے آئے ہیں تب سے علامہ اقبال کا مشہور شعر یاد آ رہا ہے جس سے آپ بھی بخوبی واقف ہیں۔ شعر یوں ہے...

کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری

صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا

جی ہاں، اس شعر کے مطابق ہندوستان میں کوئی بات تو ایسی ضرور ہے کہ اس کی ہستی مٹاتے نہیں مٹتی۔ ارے بھائی پچھلے ساڑھے چار سالوں میں نریندر مودی نے ایسی کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ ہندوستان مٹ جائے۔ گائے کے نام پر انسانوں کا قتل، چلتی ٹرین میں نوجوانوں کو اس لیے مارا گیا کہ وہ گائے کا گوشت لے کر جا رہے ہیں... بھرپور کوشش کی گئی کہ مسلم اقلیت کے دلوں میں ایسی دہشت بٹھا دو کہ وہ خود کو دوسرے درجے کا شہری محسوس کرنے لگیں۔ ارے سنگھ تو ہمیشہ سے مسلم اقلیت کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے درپے ہے۔ نریندر مودی حکومت نے تو اکثریت کو بھی جہنم میں جھونک دیا۔ کسان خودکشی پر مجبور اور فصلوں کو سڑکوں پر پھینکنے پر آمادہ، نوجوان روزگار سے محروم، دکاندار اور کرخندار کا دھندا چوپٹ۔ اس پر سے ستم یہ کہ ملک کے آئین پر ہندوتوا کا سایہ اور ملک کے ریزرو بینک، عدلیہ اور سی بی آئی جیسے اداروں کو اپنے اشاروں پر چلانے کی کوشش۔ الغرض نریندر مودی اینڈ کمپنی نے اس ملک کو مٹانے کی ہر کوشش کر ڈالی اور اکثر یہ محسوس بھی ہوا کہ ملک چوپٹ ہو جائے گا۔

لیکن واہ رے ہندوستان والو! تین ریاستوں کے انتخابی نتائج کیا آئے کہ بس بساط پلٹ گئی۔ لیکن یہ تبدیلی کیسے اور کیوں! آخر یہی ہندوستان سنہ 2014 میں مودی کا عاشق تھا۔ اس کو کاندھوں پر بٹھائے تھا اور اسی ہندوستان نے اس وقت بی جے پی کو پوری اکثریت دے کر ہندوستان کی لگام مودی کے ہاتھوں میں دے دی تھی۔ اور بس ساڑھے چار سالوں میں مزاج بدل گیا۔ اب راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ سے بی جے پی کو اکھاڑ پھینکا۔ یہی ہے ہندوستان کا مزاج۔ جب کسی کو عزت دیتا ہے تو دل میں بٹھا لیتا ہے اور ناراض ہوتا ہے تو ہستی بتا دیتا ہے۔ لیکن یہ کیوں! اس کا سبب یہ ہے کہ ہندوستانی مزاج اور ہندوستانی تہذیب اعتدال پسند ہے۔ ہندوستانیوں کے ڈی این اے میں انتہا پسندی نہیں ہے۔ سنہ 2014 میں نریندر مودی نے ترقی کی پٹی پڑھائی۔ کسانوں کو لگا کہ وہ فصل اگائے تو سونا ملے گا، نوجوانوں کو لگا کہ روزگار تو بس گھر کے باہر کھڑا ہے، مڈل کلاس کو لگا کہ کچھ نہیں تو بلیک منی کے 15 لاکھ روپے بینک اکاؤنٹ میں آ جائیں گے۔ پھر جو نفرتی مزاج رکھتے ہیں ان کو سَنگھ نے سمجھا دیا کہ مسلمان کو مودی ’ٹھیک‘ کر دے گا۔ بس نریندر مودی نے ووٹ کی فصل کاٹ لی۔ لیکن ہوا کیا، کبھی گئو رکشک تو کبھی ہندو یوا واہنی جیسوں کی غنڈہ گردی، موب لنچنگ، آذان سے آلودگی، علی نہیں بجرنگ بلی، رام کے نام پر ہڑدنگ، ہندوتوا سیاست کی انتہا پسندی نے ملک میں خود اکثریت کی روزمرہ کی زندگی میں خلل ڈال دیا۔

پھر نریندر مودی خود بھی سَنگھ کی تنگ نظری کے باہر نہیں نکل سکے۔ انھوں نے سَنگھ کو ہندوتوا نافذ کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ ہندوتوا محض مسلم دشمنی کا نام نہیں ہے۔ ہندوتوا تو پسماندہ اور دلت ہندو کا بھی دشمن ہے۔ دو سال کے اندر طرح طرح کی ’واہنی‘ اور ’رکشکوں‘ نے دلتوں کی زندگی بھی حرام کر دی۔ خود مودی نے یو پی اے حکومت کے منریگا جیسی اسکیم کو لگ بھگ ختم کر دیہاتوں میں بسی پسماندہ غریب ہندو کی کمر توڑ دی۔ غریب ہندو کہیں کا نہ رہا۔ اس کے علاوہ نریندر مودی نے ترقی کے لمبے چوڑے وعدے تو کیے لیکن ان کے پاس کسی قسم کی معاشی بصیرت تھی ہی نہیں کہ وہ ملک کو کوئی ایسا بلو پرنٹ نہیں دے سکے جس سے واقعی ملک کی ترقی ہو سکے۔ مودی نے تو ملک میں جو کچھ ہو رہا تھا اس کو بھی نوٹ بندی اور بیہودہ جی ایس ٹی ریفارم جیسے معاشی اقدام سے ختم کر دیا۔ پھر ہندوتوا میں محض مالدار لوگوں کا گزر ہے۔ مودی راج میں بینک کے خزانے بڑے سرمایہ داروں اور دھنا سیٹھوں کے لیے کھول دیے گئے۔ وہ مال لے کر ملک سے چمپت ہو گئے۔ بینک ڈوب رہے ہیں، اب ریزرو بینک کے ہاتھ مروڑ کر بینک کا ریزرو روپیہ نکالا جا رہا ہے۔ ادھر حکومت چلانے کا طرز و انداز یہ ہے کہ نرپیندر مشرا اور اجیت ڈووال جیسے چند افسروں کے ہاتھوں میں پورا نظام، باقی سب صفر۔ یعنی مودی کے پاس خود نہ سیاسی بصیرت نہ معاشی بلو پرنٹ اور نہ ہی راج پاٹھ چلانے کی سوجھ بوجھ۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان ٹھپ ہو گیا۔ آخر کب تک ہندوستانی نریندر مودی کو سر پر اٹھائے پھرتا۔

اب ہندوستانی نریندر مودی سے ناراض ہے۔ اس کی جھلک راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں نظر آئی۔ امید تو یہ ہے کہ سنہ 2019 میں نریندر مودی اقتدار سے باہر ہوں گے۔ لیکن خطرہ ابھی پوری طرح ٹلا نہیں ہے۔ تنگ نظر اور چھوٹی طبیعت کے افراد کو جب ہار نظر آتی ہے تو وہ خطرناک ہو جاتے ہیں۔ اب سنگھ اور بی جے پی کے پاس نفرت کی سیاست کے علاوہ کچھ بچا نہیں ہے۔ رام مندر کے نام پر سیاست چلانے کی بھرپور کوشش ہو سکتی ہے۔ ابھی اتر پردیش میں بلند شہر ضلع میں فساد کی جو کوشش ہوئی ویسی حرکتیں ہو سکتی ہیں۔ لب لباب یہ کہ مودی کے دانت تو ٹوٹ گئے لیکن وہ اب زخمی شیر ہیں جو اپنی دفاع میں حملہ بھی کر سکتے ہیں۔ آخر ہندوستان 2002 کا گجرات بھولا نہیں ہے۔ ایسے حاکم کے راج میں کب دنگے بھڑک اٹھیں اور کب نفرت کے شعلے جل اٹھیں، کوئی یقین نہیں ہے۔

اس لیے ابھی بھی بہت سوجھ بوجھ اور سیاسی دور اندیشی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی نے پچھلے سال بھر میں جس انداز سے کام کیا وہ یقیناً قابل ستائش ہے۔ وہ اب اپوزیشن اتحاد کے مرکز بن چکے ہیں۔ اپوزیشن اتحاد اور ہندوستانی ووٹر کی سوجھ بوجھ سے ہی سنہ 2019 کی مشکل ٹل سکتی ہے۔ پھر ہندوستان تو ہندوستان ہے ہی۔ بھلا ہندوستان کب اپنی ہستی مٹنے دے گا۔ اس لیے یقین ہے کہ سنہ 2019 کے لوک سبھا چناؤ ختم ہوتے ہوتے ملک پھر سے اپنے اعتدال پسند نہج کو لوٹ آئے گا اور ہندوستان کی وہی ہستی برقرار رہے گی جو صدیوں سے ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔