رام مندر تعمیر: محمود حسن کی مالی حالت خستہ، پھر بھی چندہ دینے میں نہیں ہٹے پیچھے

بنیادی طور پر اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے محمود حسن کا کہنا ہے کہ وہ ہندوستان میں ہندو-مسلم اتحاد کو مضبوط ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر

رام مندر تعمیر کے لیے چندہ وصولی کی مہم زور و شور سے جاری ہے۔ کوئی کروڑوں میں چندہ دے رہا ہے تو کوئی لاکھوں میں، اور غریب طبقہ بھی کچھ نہ کچھ تعاون کر رہا ہے۔ اس درمیان کچھ ایسی خبریں بھی سامنے آئی ہیں جن میں مسلمانوں نے رام مندر کے لیے چندہ دے کر ہندوستان میں موجود گنگا-جمنی تہذیب کو آگے بڑھایا ہے۔ ان ہی افراد میں ایک نام محمود حسن کا ہے جن کی ہر کوئی تعریف کر رہا ہے۔

میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق بھٹّا کیارکولی گاؤں باشندہ محمود حسن مصوری میں موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں۔ ان کی مالی حالت انتہائی خستہ ہے، اس کے باوجود انھوں نے ہندو-مسلم بھائی چارہ کی مثال پیش کرتے ہوئے رام مندر تعمیر کے لیے 100 روپے کا چندہ دیا ہے۔ 70 سالہ محمود حسن کے تعلق سے بتایا جاتا ہے کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی مل چکے ہیں اور ملک میں ہندو-مسلم اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔


رام مندر تعمیر کے لیے چندہ دیے جانے کے تعلق سے جب محمود حسن سے سوال کیا گیا کہ انھوں نے مالی حالت ٹھیک نہ ہوتے ہوئے بھی کیوں 1100 روپے کا چندہ دیا، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ’’میرے پاس 11 ہزار روپے ہوتے تو وہ بھی رام مندر کے لیے دینے سے پیچھے نہیں ہٹتا۔‘‘ نریندر مودی سے ہوئی ملاقات کے بارے میں پوچھنے پر محمود حسن نے بتایا کہ 2009 میں ان کی ملاقات مسوری میں ہوئی تھی جب نریندر مودی ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ اس وقت محمود حسن نے نریندر مودی کا مساج کیا تھا۔

محمود حسن نے ہندو-مسلم بھائی چارے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہندوستان میں ہندو-مسلم اتحاد کو مزید مضبوط ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ بنیادی طور پر اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے محمود حسن نے مسوری میں اپنے قیام کے تعلق سے بتایا کہ 1972 میں جب وہ مسوری کے کیارکولی گاؤں پہنچے تھے تو یہاں رہنے والے ڈالو بھائی، رتن اور پریم سنگھ نے ان کی کافی مدد کی تھی۔ محمود حسن کے مطابق کورونا وائرس پھیلنے کے وقت نافذ لاک ڈاؤن میں یوتھ بی جے پی رکن راکیش راوت نے بھی ان کی بہت مدد کی تھی اور یہ ہندو-مسلم اتحاد ہی ہے جس کی وجہ سے سبھی ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔