راجہ محمود آباد انتہائی مہذب، متمدن اور ادبی شخصیت کے مالک تھے

راجہ محمود آباد محمد امیر محمد خان کا تعلق سیتا پور ضلع سے تھا اور وہ محمود آباد اسمبلی سیٹ سے دو بار کانگریس پارٹی کے رکن اسمبلی رہے

<div class="paragraphs"><p>راجہ محمود آباد محمد امیر محمد خان کی فائل تصویر</p></div>

راجہ محمود آباد محمد امیر محمد خان کی فائل تصویر

user

حسین افسر

راجہ محمود آباد گزشتہ روز قیصر باغ لکھنؤ میں واقع اپنی رہائش پر انتقال کر گئے۔ وہ عرصہ دراز سے علیل تھے اور بالآخر انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ راجہ صاحب کی ولادت 1943 میں ہوئی تھی اور عرصہ دراز تک وہ سرکاری ظلم و زیادتی کے خلاف نبرد آزما رہے۔ ان کی املاک کو حکومت کی جانب سے اس لیے ضبط کر لیا گیا تھا کہ ان کے والد پر الزام تھا کہ انہوں نے تقسیم ہند میں شرکت کی تھی، چنانچہ ان کی تمام املاک کو دشمن جائداد قرار دے دیا گیا۔

راجہ محمود آباد انتہائی مہذب، متمدن اور ادبی شخصیت کے مالک تھے ان کو ایسٹرو فیزکس میں مہارت حاصل تھی۔ لاتعاد اشعار ان کی زبان پر رہتے تھے۔ گفتگو کا ایک خاص لہجہ اور نشست و برخاست کا ایک منفرد انداز ملاقات کرنے والوں کا دل چھو لیتا تھا۔ مرثیہ خوانی میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا اور گھنٹوں ان کے کلام میں عقیدت مندگان محو رہتے تھے۔ ان کو متعدد زبانوں پر عبور حاصل تھا اور عربی و فارسی ان کی مادری زبان جیسی تھیں۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک کا سفر کر چکے تھے اور ان کو ان مقامات کی تاریخ اور جغرافیہ سے کافی لگاؤ تھا۔


راجہ صاحب دو بار کانگریس کے ٹکٹ سے محمود آباد کے رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور عوامی خدمت کی۔ ریاست محمود آباد میں بھی ان کو بہت مقبولیت حاصل تھی مقامی شہری بھی ان سے والیہانہ محبت کرتے تھے۔

کانگریس کے سابق ایم ایل اے راجہ محمود آباد محمد امیر محمد خان کا تعلق سیتا پور ضلع کی محمود آباد اسمبلی سیٹ سے دو بار کانگریس پارٹی کے ایم ایل اے رہے۔ دشمن جائیداد کے معاملے میں وہ سرخیوں میں آ گئے۔ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور یہاں کے انسٹی ٹیوٹ آف آسٹرونومی میں مہمان پروفیسر رہے۔

راجہ صاحب نے اپنی املاک کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے تیس سال سے زیادہ عرصہ تک قانونی جنگ لڑی اور سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ان کے والد کی املاک کے وارث راجہ محمد امیر محمد خان ہیں۔ مگر بی جے پی حکومت نے پارلیمان میں قانون بنا کر ان کی جائداد کو حقدار تک نھیں پہنچنے دیا۔ قلعہ محمود آباد کی زیادہ تر املاک وقف سے متعلق ہے اور ان کا اندراج شیعہ وقف بورڈ میں ہے۔


بھارت چین جنگ کے بعد مرکزی حکومت کی توجہ ان جائیدادوں کی طرف مبذول ہوئی جو ان لوگوں کی تھیں جو پاکستان چلے گئے تھے۔ ایسی جائیدادوں کے حوالے سے بنائے گئے ڈیفنس ایکٹ 1962 کے تحت حکومت نے ریاست محمود آباد کی جائیدادوں کو دشمن جائیداد قرار دے کر اپنی تحویل میں لے لیا۔ سال 1973 میں عامر احمد کے بیٹے راجہ محمد عامر محمد خان نے ان جائیدادوں پر دعویٰ کیا۔

2010 میں اس وقت کی یو پی اے حکومت نے اینمی پراپرٹی ایکٹ میں ترمیم کی اور راجہ کی تمام جائیدادیں کسٹوڈین کے پاس چلی گئیں۔ 7 جنوری 2016 کو نیا آرڈیننس لایا گیا تو سپریم کورٹ نے دشمن جائیداد کی فروخت پر پابندی لگا دی۔

سماجی اور ادبی دنیا سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ آج صبح ان کے بیٹے پروفیسر۔ علی خان نے ان کے انتقال کی اطلاع فیس بک پیغام کے ذریعے شیئر کی۔ ایس پی سربراہ اکھلیش یادو نے ٹوئٹ کے ذریعے راجہ محمود آباد کے انتقال پر غم کا اظہار کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ 


راجہ محمودآباد ایک ہمہ جہت باصلاحیت اور خوبیوں والے کے انسان تھے، انہوں نے ایک پاکیزہ زندگی گزاری اور ایسے طرز عمل اور اقدار کی نمائش کی جو جدید دور میں ختم ہو رہی ہیں۔ ایک ادبی مہذب اور بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر فلکیات کے طور پر تعلیم کے میدان میں ان کی خدمات یکساں طور پر بے مثال ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔