کورونا سے مرنے والوں کی تعداد کو عوامی کرنے والی رپورٹ پر راہل گاندھی نے کہا– مودی جی نہ تو سچ بولتے ہیں، نہ بولنے دیتے ہیں

راہل گاندھی نے کہا کہ مودی جی نہ تو سچ بولتے ہیں اور نہ ہی بولنے دیتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ کووڈ میں حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے 5 لاکھ نہیں، 40 لاکھ ہندوستانیوں کی موت ہوئی ہے۔

راہل گاندھی، تصویر آئی اے این ایس
راہل گاندھی، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

'دی نیو یارک ٹائمز' کی ایک رپورٹ کے مطابق، ہندوستان عالمی کووڈ سے ہونے والی اموات کی تعداد کو عام کرنے کے لیے ڈبلیو ایچ او کی کوششوں کو روک رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ الزامات براہ راست مرکز کی موجودہ حکومت پر ہیں۔ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے اس رپورٹ پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی راہل گاندھی نے مودی حکومت سے کووڈ متاثرین کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

راہل گاندھی نے ٹوئٹ کر کے کہا کہ ’’مودی جی نہ تو سچ بولتے ہیں اور نہ ہی بولنے دیتے ہیں۔ وہ آج بھی جھوٹ بولتے ہیں کہ آکسیجن کی کمی سے کوئی نہیں مرا۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ کووڈ میں حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے 5 لاکھ نہیں، 40 لاکھ ہندوستانیوں کی موت ہوئی ہے۔ مودی جی اپنا فرض ادا کریں۔ ہر متاثرہ خاندان کو 4 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جائے۔


'دی نیویارک ٹائمز' میں شائع رپورٹ میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران ہندوستان میں افراتفری کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں دہلی میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران ایک ساتھ آخری رسومات کا بھی حوالہ دیا گیا، اور یہ بھی بتایا گیا کہ اپریل 2021 میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران دہلی میں کووڈ سے مرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کی آخری رسومات کس طرح سے ایک ساتھ ادا کی گئیں۔

واضح رہے کہ ملک میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران ہونے والی اموات کے حوالے سے بھی رپورٹنگ کی گئی تھی۔ ملک کے مختلف اخبارات میں جو رپورٹیں شائع ہوئیں اور ان میں مرنے والوں کی تعداد حکومت کی طرف سے پیش کی گئی کئی رپورٹوں سے کہیں زیادہ تھی۔ اس وقت بھی حکومت پر مرنے والوں کی اصل تعداد چھپانے کا الزام تھا۔


یہی نہیں بعد میں حکومت نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایک بھی شہری آکسیجن کی کمی سے نہیں مرا۔ جب کہ کورونا کی دوسری لہر کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں آکسیجن کی کمی کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ اسپتالوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کے یہاں آکسیجن کی کمی ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے اس کے بالکل برعکس جواب دیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔