بھارت چھوڑو تحریک: آنچل کو پرچم بنانے والی گمنام انقلابی صغریٰ خاتون

کانگریس نے 8 اگست 1942 کو ممبئی اجلاس میں مولانا آزاد کی صدارت اور یوسف مہر علی کے نعرے کے ساتھ بھارت چھوڑو تحریک کا بگل بجایا۔ جس میں بلا تفریق مذہب وملت معاشرے کے ہر طبقے نے حصہ لیا

<div class="paragraphs"><p>مجاہد آزادی صغریٰ خاتون</p></div>

مجاہد آزادی صغریٰ خاتون

user

شاہد صدیقی علیگ

جب 8 اگست 1942 کو کانگریس پارٹی نے ممبئی اجلاس میں مولانا آزاد کی صدارت اور یوسف مہر علی کے نعرے کے ساتھ بھارت چھوڑو تحر یک کا بگل بجایا۔ جس میں بلا تفریق مذہب وملت معاشرے کے ہر طبقے نے بڑے پیمانے پر حصہ لیا۔ جن میں ایک پردہ نشین صنف نازک صغریٰ خاتون بھی شامل تھی۔ جس نے مجاہد آزادی بیگم آبادی سے لے کر سروجنی نائیڈو اورمسز موتی لعل نہرو کے ساتھ تحریک آزادی کی ہر مہم میں اپنی موجودگی درج کرائی۔

صغریٰ خاتون عرف بگّن کی پیدائش عثمان آباد ریاست نظام حیدر آباد میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام سید ہادی اور والدہ کا نام سعید النساء تھا۔ شوہر کے انتقال کے بعد ان کی والدہ اپنے مائکے موضع بھٹولی ضلع بارہ بنکی چلی آئی تھیں۔ جہاں تیرہ برس کی عمر میں صغریٰ خاتون کی شادی ایک زمیندار خاندان کے چشم و چراغ محمد ضمیر صاحب سے کر دی گئی جو محض چھ سال بعد دو سال کی بچی زاہدہ کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ بالآخر صغریٰ خاتون سسرال میں جائداد کے فتنوں سے عاجز آ کر اپنے ماموں کے پاس لکھنؤ آ گئیں۔ لکھنؤ ان دنوں تحریک آزادی کا گہوارہ بنا ہوا تھا جہاں خلافت اور ستیہ گرہ تحریک اپنے عروج پر تھی جس میں پردہ نشین خواتین بھی کا فی سرگرمی کا مظاہر ہ کررہی تھیں۔ جنہیں دیکھ کر صغریٰ خاتون نے بھی پھولوں کی سیج چھوڑ کر جدوجہد آزادی کی پرخار راہوں پر قدم رکھ دیے۔


وہ سروجنی نائیڈو، مسز موتی لعل نہر و و غیرہ کے ہمراہ تقریباً تمام خواتین کے اجلاس میں شرکت کرتیں۔جب ولایتی کپڑوں کے بائیکاٹ کی مہم کا آغاز ہوا تو صغریٰ خاتون بھی دوسری خواتین کے ساتھ دکانوں کے سامنے راستے حائل کرنے میں شامل رہتی تھیں۔ایک موقع پر پولیس نے خواتین پر کوڑے برسائے ااور سروجنی نائیڈو شدید طور پر زخمی ہو گئیں۔ بعد ازیں احتجاجی خواتین کو حراست میں لے لیا گیا۔ لیکن صغریٰ خاتون کو برقعے کے سبب چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنے تمام ولایتی کپڑوں کو نذر آتش کر دیا اور کھدر کا کرتا، چوڑی دار پاجامہ پہننا شروع کر دیا۔ صغریٰ کے ماموں جو ان کے سرپرست بھی تھے، سرکاری ملازم ہونے کے سبب ان سے خفا رہنے لگے تاہم انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی۔

جب بی اماں لکھنؤ آئیں تو صغریٰ نے بھی جلسے میں شرکت کی اور جیسے ہی بی اماں نے چندہ اکٹھا کرنا شروع کیا تو صغریٰ خاتون نے سب سے پہلے اپنا سارا زیور چندے میں دے دیا جو غالباً پچاس تولے سونا اور کچھ قیمتی جواہرات پر مشتمل تھا اور بعد ازاں ایک ایسی مختصر مگر پرجوش تقریر کی کہ جسے سن کر وہاں موجود تمام خواتین نے پیسے اور اپنے زیوارات اتار اتار کر چندے میں دے دیے۔ انہوں نے چندہ جمع کرنے کے لیے بارہ بنکی، کانپور، الٰہ آباد اور دہلی وغیرہ کا بھی سفر کیا۔


صغریٰ 1942 کی بھارت چھوڑو تحریک میں بھی شامل ہوئیں لیکن اس دوران انہیں بعض وجوہات کی بنا پر بار بار حیدرآباد جانا پڑا جس کی وجہ سے قومی تحریک میں نمایاں کردار ادا کرنے سے قاصر رہیں۔آزادی سے قبل وہ اپنی دختر زاہدہ اور بچوں کے ساتھ حیدر آبا د چلی گئیں لیکن پولیس ایکشن کے بعد وہ پھر لکھنؤ واپس آ گئیں۔ صغریٰ خاتون کو مطالعہ اور اخبار بینی کا بہت شوق تھا۔ حالات حاضرہ پر ان کی عمیق نظر تھی۔ ان کے مضامین ’ہمدم، زمینددار اور ہمدرد وغیرہ میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ محب الوطن صغریٰ خاتون 10 مئی 1968 بروز جمعہ رب حقیقی سے جا ملیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔