آہ! قدآور لیڈر اور سابق مرکزی وزیر رشید مسعود نے دنیا کو کہا الوداع

کورونا پازیٹو پائے جانے کے بعد 27 اگست کو رشید مسعود اپولو اسپتال میں داخل ہوئے۔ ایک مہینے علاج کے بعد وہ ٹھیک ہو کر گھر آ گئے تھے، لیکن اتوار کو اچانک طبیعت خراب ہوئی اور آج ان کا انتقال ہو گیا۔

رشید مسعود کی فائل تصویر
رشید مسعود کی فائل تصویر
user

آس محمد کیف

سہارنپور سے 9 بار لوک سبھا و راجیہ سبھا کے رکن رہ چکے اور مرکزی وزیر مملکت کی ذمہ داری بھی سنبھال چکے قدآور لیڈر رشید مسعود اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ گئے۔ وہ ایک مہینے سے بیمار تھے، حال ہی میں ان پر کورونا کا حملہ بھی ہوا تھا لیکن اس پر فتح حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہو گئے تھے۔

سہارنپور کی سیاست کے سنگ میل رشید مسعود نے اپوزیشن امیدوار کے طور پر نائب صدر جمہوریہ کا انتخاب بھی لڑا تھا۔ سہارنپور کے زیادہ تر لیڈران رشید مسعود کے ہی سیاسی شاگرد ہیں اور ان میں جگدیش رانا، سنجے گرگ، کنور پال دودھلا، کنور پال ماجرا، دھرم سنگھ موریہ، عمران مسعود جیسے کئی نام شامل ہیں۔ ایپیڈا کے چیئرمین رہ چکے رشید مسعود کو مغربی اتر پردیش میں ایک ایسے لیڈر کی شکل میں جانا جاتا ہے جسے ہندو-مسلم دونوں طبقہ سے برابر ووٹ ملتا رہا۔ وہ آنجہانی کسان لیڈر اور سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ کے سب سے محبوب ساتھیوں میں سے ایک رہے۔


27 اگست کو کورونا کے سبب انھیں دہلی کے اپولو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ تقریباً ایک مہینے علاج کے بعد کورونا کو شکست دے کر وہ سہارنپور اپنے گھر واپس آئے لیکن اتوار کی صبح اچانک طبیعت خراب ہونے کے بعد رُڑکی میں بھتیجے کرنل عدنان مسعود کے اسپتال میں لے جایا گیا اور آج انھوں نے آخری سانس لی۔ سہارنپور کی تمام ہستیوں نے ان کے انتقال پر بیہٹ روڈ واقع گھر پہنچ کر اظہارِ غم کیا۔ رشید مسعود کانگریس لیڈر عمران مسعود کے چچا ہیں اور عمران نے سیاست کا سبق انہی سے پڑھا ہے۔ رشید مسعود کے بیٹے شادان مسعود سہارنپور سے لوک سبھا انتخاب لڑ چکے ہیں۔ ان کے علاوہ ان کی ایک بیٹی شاذیہ مسعود بھی ہے۔

رشید مسعود کی سیاسی زندگی کافی اتھل پتھل والی رہی۔ قاضی رشید مسعود 1977 میں پہلی بار جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ وہ وی پی سنگھ، ملائم سنگھ یادو کے ہم سفر تھے۔ رشید مسعود ایک ایسے لیڈر کی شکل میں جانے جاتے ہیں جو لگاتار پارٹیاں بدلتے رہے لیکن ان کا ووٹ بینک ان سے الگ نہیں ہوا۔ جنتا پارٹی (سیکولر)، جنتا دل، کانگریس، سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی سبھی کے ساتھ مل کر انھوں نے سیاست کی۔ 1996 میں انھوں نے انڈین ایکتا پارٹی بنائی اور 2003 میں ایک بار پھر سماجوادی پارٹی میں چلے گئے۔ 2007 میں انھوں نے نائب صدر کا انتخاب لڑا تھا۔ رشید مسعود 1989 میں وی پی سنگھ کی قیادت والی مرکزی حکومت میں وزیر صحت رہے تھے۔ 2012 میں انھیں کانگریس نے راجیہ سبھا میں بھیجا تھا۔ اس کے بعد انھیں ایپیڈا کا بھی چیئرمین بنایا گیا۔


بہر حال، 15 اگست 1947 کے مبارک دن پیدا ہوئے رشید مسعود کے تعلق سے ان کے بیٹے شادان نے بتایا کہ وہ کئی طرح کی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ گزشتہ ایک مہینے سے دل اور گردے کے مرض کا بھی سامنا کر رہے تھے۔ انھیں ذیابیطس کی بھی بیماری لاحق تھی۔ ان کے انتقال سے سہارنپور میں غم کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔

سہارنپور کے رکن پارلیمنٹ حاجی فضل الرحمن نے ان کے انتقال پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "وہ ہم سب کے لیے قابل احترام شخصیت تھے۔" سابق ضلع پنچایت صدر ارشاد چودھری کا کہنا ہے کہ "رشید مسعود نے سہارنپور کی سیاست کو ایک نئی اونچائی دی۔" عمران مسعود نے اپنے چچا کے انتقال پر اظہار غم کرتے ہوئے کہا کہ "چچا اس دنیا میں ان کے سب سے قریبی شخص تھے، انھوں نے ہی مجھے چلنا سکھایا۔"


سماجوادی پارٹی لیڈر فیروز آفتاب نے بھی رشید مسعود کے انتقال پر افسوس ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا کہ "سہارنپور نے اپنا کوہ نور کھو دیا۔" سماجوادی پارٹی کے ضلع صدر اور رشید مسعود کے حریف رہے آنجہانی چودھری یشپال کے بیٹے چودھری رودرسین نے بھی انھیں ایک عظیم لیڈر قرار دیا اور کہا کہ "اب ان کی جگہ کوئی نہیں لے پائے گا، وہ سیکولرزم کے سپاہی تھے۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */