پرینکا گاندھی نے پی ایم مودی کی ’لفاظی‘ کو کیا بے نقاب، پوچھا ’بی جے پی کی %40 حکومت لوٹ رہی تھی تب کیا کر رہے تھے؟‘

پرینکا گاندھی نے عوام سے شکایتی انداز میں کہا کہ آپ ان لوگوں سے جواب ہی نہیں مانگتے، آج انتخاب آتے ہی یہ لوگ مذہب کی بات کر، ذات کی بات کر آپ کو ورغلاتے ہیں اور آپ بہک جاتے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>پرینکا گاندھی، تصویر @INCIndia</p></div>

پرینکا گاندھی، تصویر @INCIndia

user

آصف سلیمان

کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے کرناٹک انتخاب کے پیش نظر آج اِندی میں عظیم الشان جلسہ عام کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے بچوں کے لیے مضبوط مستقبل چاہتے ہیں، اسی لیے دن رات محنت کرتے ہیں اور کوئی بھی ہو، میں بھی اپنے بچوں کے لیے یہی چاہتی ہوں اور حکومت کا اس میں ایک بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ دراصل جب آپ جدوجہد کرتے ہیں، آپ کی زندگی میں مشکلات پیش آتی ہیں، آپ کے لیے کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو حکومت آپ کو بہت مدد کر سکتی ہے۔ جیسے میری بہنیں یہاں ہیں، آج مہنگائی کی وجہ سے آپ کی زندگی میں کتنی مشکلات ہیں، آپ جانتے ہیں کہ گیس سلنڈر 1100 روپے کا ہو گیا ہے۔

پرینکا گاندھی نے کہا کہ یہ تمام مشکلات آپ کے سامنے ہیں اور ساڑھے تین سالوں سے جو یہ مشکلات ہیں، یہ کم نہیں ہوئی ہیں، بلکہ بڑھتی چلی گئی ہیں کیونکہ آپ کو ایک ایسی حکومت ملی جو شروع سے ہی غلط طریقے سے بنی۔ شروع سے ہی انھوں نے لالچ کی وجہ سے، اقتدار کی وجہ سے اراکین اسمبلی کو خریدا اور ایک حکومت کو توڑ کر یہ حکومت بنائی۔ تو شروع سے ان کی نیت کیا تھی، ان کی نیت تھی کہ اقتدار میں آنا ہے، لوٹ مچانی ہے، اپنے آپ کو آگے بڑھانا ہے اور عوام کی مصیبتوں کو پوری طرح سے مسترد کرنا ہے۔ یہی ان کی نیت تھی۔


پرینکا گاندھی نے کہا کہ آج میں جب یہاں آ رہی تھی تو میں نے دیکھا کہ وزیر اعظم مودی قریب میں ہی کہیں تقریر کر رہے ہیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ جس کو ان کے لوگ سب سے طاقتور، سب سے اعلیٰ، بہترین، وِکاس پرش کہہ رہے ہیں، وہ پی ایم مودی کرناٹک آ کر کہہ رہے ہیں کہ میرا ایک خواب تھا کہ میں کرناٹک میں ترقی لاؤں گا، میرا ایک خواب تھا کہ کرناٹک کو میں پورے ملک میں ترقی کی مثال بناؤں گا۔ سوال ہے کہ کیوں نہیں بنایا؟ آپ تو سب سے طاقتور ہیں، سب سے اعلیٰ ہیں، سب کچھ جانتے ہیں، سب جگہ آپ ہی آپ ہیں تو آپ نے کیوں نہیں اپنا خواب شرمندہ تعبیر کیا؟ اور میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ جب آپ ہی کی بنائی بی جے پی حکومت عوام کو 40 پرسینٹ حکومت بن کر لوٹ رہی تھی تو آپ کیا کر رہے تھے؟

اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پرینکا گاندھی نے کہا کہ آج مجھے سمجھ میں آ گیا کہ جب یہ لوٹ مچ رہی تھی تو آپ کی آنکھیں بند کیوں تھیں، آپ کی آنکھیں بند اس لیے تھیں کیونکہ آپ خواب دیکھ رہے تھے، مصروف تھے بہت، بڑے بڑے خواب دیکھ رہے تھے، تو آپ نے لوٹ مچنے دی، آپ نے چوری ہونے دی، آپ نے روکا نہیں کسی کو۔ یہ کیسی بات ہوئی! 40 پرسینٹ حکومت کیوں ہے آپ کی حکومت کا نام، کانٹریکٹرس خودکشی کر رہے ہیں، آپ کی حکومت کو، وزیر اعظم کو، سب کچھ جاننے والے، سب کچھ سمجھنے والے کو چٹھی لکھتے ہیں، کوئی جواب نہیں آتا۔


کانگریس جنرل سکریٹری نے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ایسے حالات بی جے پی نے بنائے ہیں، لیکن آپ سے بھی ایک شکایت ہے کہ آپ نے یہ حالت بنانے دیئے، کیونکہ آپ بار بار انتخاب آتا ہے اور بار بار آپ کا دھیان بھٹک جاتا ہے۔ آپ جواب ہی نہیں مانگتے، آپ نے یہ ماحول بنا دیا ہے ملک میں، ریاست میں، کہ لیڈر کچھ بھی نہ کرے تب بھی اس کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ آ کر اسٹیج پر کھڑا ہو جائے گا، کوئی جذباتی معاملہ اٹھا دے گا، مذہب کی بات کرے گا، ذات کی بات کرے گا... تو بس پھر سے جیت جائے گا۔ اگر اس کو معلوم ہے کہ وہ یہ سب باتیں کر کے انتخاب جیت سکتا ہے تو وہ کام کیوں کرے گا؟ اسی لیے تو کام کرنا بند ہو گیا ہے۔ اسی لیے جوابدہ حکومتیں نہیں بنتی ہیں، کیونکہ جب موقع آتا ہے انتخاب کا تو ایسا دھیان بھٹکا دیتے ہیں مذہب کی باتیں کر کے اور اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے کہ آپ بھول جاتے ہیں کہ آپ کا ووٹ تو آپ کے لیے پڑنا چاہیے، آپ کا ووٹ آپ کی ترقی کے لیے، آپ کے بچوں کی ترقی کے لیے جانا چاہیے، آپ یہ سب بھول جاتے ہیں۔

پرینکا گاندھی نے کسانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ کسان خودکشی کرتے ہیں، کسانوں کا مسئلہ کوئی نہیں دیکھ رہا، کسانوں کو کوئی راحت نہیں دی جاتی۔ آج انتخاب آیا ہے تو اِدھر اُدھر کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یوپی میں جب کوئی اِدھر اُدھر کی زیادہ باتیں کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ بھائی مدے پر آؤ، مدے پر آؤ، یہ تو مدے پر آ ہی نہیں رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ مدے کیا ہیں... ترقی، آپ کے لیے اسپتال بنانا، آپ کے لیے تعلیمی ادارے بنانا، آپ کے لیے سڑکیں بنانا، نوجوانوں کو روزگار دینا، میری بہنوں کو مہنگائی سے راحت دینا، کسانوں کو آگے بڑھانا، یہی تو ایشوز ہیں، تو اس پر یہ لوگ کیوں نہیں بات کر رہے ہیں؟ ساڑھے تین سالوں سے ان کی حکومت رہی ہے، کیا کیا انھوں نے؟ مہنگائی اتنی بڑھ چکی ہے کہ آپ کچھ خرید ہی نہیں پا رہے ہیں، کسان بے حال ہیں، پریشان ہیں، ہر طرف سے اس کی پریشانی بڑھ ہی رہی ہے۔ جی ایس ٹی-جی ایس ٹی کر کے اتنی مہنگائی بڑھا دی ہے کہ چھوٹے دکاندار ہی پریشان ہیں۔ ان کا کاروبار چل ہی نہیں رہا ہے۔ جو اسمال-میڈیم بزنس ہیں وہ چل ہی نہیں پا رہے ہیں، اور لوٹ کم نہیں ہوئی ہے۔ کرناٹک سے ساڑھے تین سالوں میں 150000 کروڑ روپے لوٹے ہیں۔ اتنے پیسے لوٹے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ان 150000 کروڑ روپیوں سے کیا کچھ نہیں بن سکتا تھا؟


پھر پرینکا گاندھی کہتی ہیں کہ جتنا پیسہ انھوں نے لوٹا ہے، اس سے آپ کے لیے 100 ایمس کے اسپتال بن سکتے تھے، 2250 کلومیٹر طویل 6 لائن کی ایکسپریس وے بن سکتی تھی، 187 ای ایس آئی اسپتال بن سکتے تھے، 30000 اسمارٹ کلاس روم بن سکتے تھے جس میں بچے پڑھ سکتے تھے، 30 لاکھ غریبوں کے لیے گھر بن سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے کیا کیا ان پیسوں کا... ان پیسوں کو لوٹا اور آج آپ کے سامنے منھ دکھانے لائق نہیں ہیں۔ آج آپ کے سامنے آپ کے ایشوز پر بات نہیں کر سکتے، اس لیے ہر روز کوئی نیا ایشو اٹھاتے ہیں جس کا آپ کی ترقی، آپ کی زندگی، آپ کے روز مرہ کے مسائل سے کوئی مطلب نہیں ہے۔

کانگریس لیڈر عوام سے کہتے ہیں کہ آپ نے خود ہی دیکھا ہوگا کہ بنگلورو جیسے بڑے شہر سے کتنی ساری کمپنیاں چلی گئی ہیں ان ساڑھے تین سالوں میں۔ موٹورولا، ایپل، نوکیا، اولا، سیمسنگ سبھی چھوڑ کر چلے گئے۔ کوئی چنئی گیا، کوئی حیدر آباد گیا۔ کیونکہ لوٹ اتنی ہے کہ انفراسٹرکچر ہی خراب ہو رہا ہے۔ بنگلورو جیسے شہر میں 35 لوگ گڈھے کے اندر گر کر مر گئے، حالانکہ یہاں ترقی کے اتنے مواقع ہیں۔ چاہے آپ ’نندنی‘ کو دیکھیے، آپ نے بنایا نندنی، آج بی جے پی حکومت کہتی ہے نندنی میں دودھ اکٹھا نہیں ہو رہا ہے، کم ہو رہا ہے، امول کو گجرات سے لاتے ہیں، لیکن ساڑھے تین سال پہلے جب کانگریس کی حکومت تھی تو دودھ کے لیے کسانوں کو 5 روپے لیٹر سبسیڈی ملتی تھی، دودھ اتنا اکٹھا ہو رہا تھا کہ مفت میں اسکول کے بچوں کو مل سکتا تھا، تو اب اچانک کیسے کم ہو گیا۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ یہ جو نندنی آپ نے بنائی، اس کو بھی لوٹنے کی کوشش ہے۔ گجرات سے امول لائیں گے اور آہستہ آہستہ نندنی کو ختم کر ڈالیں گے۔


پرینکا گاندھی نے کہا کہ آج میرے نوجوان بھائی بہن یہاں پر کھڑے ہیں، کتنوں کو سرکاری روزگار ملا، کسی کو نہیں ملا ہے۔ 250000 سرکاری عہدے خالی پڑے ہوئے ہیں، لیکن ملازمتیں آپ کو مل نہیں رہی ہیں۔ جو ملازمت کے مواقع ہوتے ہیں، روزگار کے مواقع ہوتے ہیں، کہاں سے آتے ہیں... چھوٹی دکانوں سے، چھوٹے کاروباروں سے، میڈیم کاروباروں سے، بڑے بڑے جو پی ایس یو ہوتے تھے، جو حکومت کے ہوتے تھے، اس سے بہت ملازمتیں بنتی تھیں اور کسانوں کو مضبوط کر کے، زراعت مضبوط کر کے مزید روزگار مواقع بنتے تھے، لیکن ان میں سے کون سے کام کیے ان لوگوں نے، کوئی ایسا کام نہیں کیا۔ بڑے بڑے پی ایس یو اپنے صنعت کار دوستوں کو دے دیئے، پرائیویٹائز کر دیئے، وہاں سے ملازمتیں بند، جو چھوٹی دکانیں ہیں، چھوٹے کاروبار ہیں، ان کی کمر توڑ دی، وہ آگے نہیں بڑھ پا رہے۔ کسانوں کا تو پوچھیے مت۔

آخر میں پرینکا گاندھی نے کہا کہ ’’اس لیے میں چاہتی ہوں کہ آج آپ کے سامنے کھڑے ہوئے آپ سے ووٹ نہیں مانگنا ہے مجھے، آپ کی بیداری مانگ رہی ہوں میں۔ میں کہہ رہی ہوں کہ جاگ جاؤ۔ بہت ہو گیا، 10 سال ہونے والے ہیں، جب دیکھو اسٹیج پر آ کر فضول کی باتیں کرتے ہیں۔ ارے بتائیں تو سہی، ساڑھے تین سالوں میں کرناٹک کا کیا کچھ کیا؟ اگر کیا ہے تو بتا پاؤ گے۔ میں بتاتی ہوں کہ کانگریس نے کیا کچھ کیا۔ جب کانگریس حکومت تھی تو ’اَنّ بھاگیہ‘ بنایا، ’کشیر بھاگیہ‘، ’پشو بھاگیہ‘، ’آروگیہ بھاگیہ‘، ’ودیا شری‘، ’اندرا کینٹین‘... یہ سب تو کانگریس کی اسکیمیں تھیں اور ان سے آپ کو سہولت ملی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔