مترو! اصل انتخاب 5 نہیں 3 ریاستوں میں ہوئے، اور وہاں بی جے پی کی حالت خستہ

پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے ایگزٹ پول ملے جلے اشارے دے رہے ہیں، لیکن ایک بات واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ بی جے پی کا زوال یقینی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تسلیم خان

پانچ ریاستوں میں ووٹنگ ختم ہو چکی ہے اور اب 11 دسمبر کو ووٹوں کی گنتی کا انتظار ہے۔ اس درمیان ہر انتخابات کی طرح سبھی نیوز چینلوں کے ایگزٹ پول بھی آ گئے۔ چینلوں کی اپنی اپنی عقیدت کے مطابق ان کے نتائج بھی سامنے ہیں۔ لیکن ایک بات جو سبھی نیوز چینلوں کے ایگزٹ پول سے واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا کی (دعوے کے مطابق) سب سے بڑی سیاسی پارٹی کا زوال لازمی ہے۔ اور اس زوال کا گہرا اثر آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں نظر آنا بھی یقینی معلوم پڑ رہا ہے۔

گزشتہ کئی سالوں سے انتخابات پر گہری نظر رکھنے والے میرے ایک صحافی دوست نے تو دھند مزید صاف کر دی۔ ان کا ماننا ہے کہ ظاہری طور پر انتخاب بھلے ہی پانچ ریاستوں میں ہوا ہو لیکن اصل انتخاب تو تین ریاستوں میں ہی تھے۔ اور یہ تین ریاستیں ہیں ہندی بیلٹ کی مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان۔ میرے صحافی دوست ایک قومی چینل میں اینکر ہیں اور ایگزٹ پول پر گفتگو کے لیے سبھی پارٹیوں کے لیڈروں کا رد عمل ان کے سامنے تھا۔ ان کا صاف ماننا ہے کہ بات بات پر جارحانہ رخ اختیار کرنے والی بی جے پی کے ترجمان و لیڈر ڈیفنسیو یعنی دفاعی راستہ اختیار کرتے ہوئے نظر آئے۔

انتخابات تین ریاستوں میں ہی ہوئے اور یہ بات تھوڑی گہری اور قابل غور ہے۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات یعنی 2014 کے انتخابات کی بات کریں تو ان تینوں ریاستوں کی کل 65 لوک سبھا سیٹوں میں سے بی جے پی 62 سیٹیں جیتی تھیں۔ راجستھان میں تو سبھی 25 سیٹیں اس کے حصے میں آئی تھیں جب کہ مدھیہ پردیش میں 29 اور چھتیس گڑھ میں 10 سیٹوں پر بی جے پی فتحیاب ہوئی تھی۔ 7 دسمبر کو منظر عام پر آئے سبھی ایگزٹ پول سے ایک ملی جلی تصویر ہی سامنے آئی ہے اور ایسا اشارہ ہے کہ جب 11 دسمبر کو ووٹوں کی گنتی ہوگی تو مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ سے بی جے پی کے لیے خبر اچھی نہیں آئے گی۔

تو پھر آخر کون کہاں پیچھے رہ گیا اور کون کس طرح بازی مرتا ہوا نظر آ رہا ہے؟ بی جے پی کو گزشتہ لوک سبھا انتخاب میں شمالی ہند کی ریاستوں میں 90 فیصد سیٹیں ہاتھ لگی تھیں، لیکن اب چیلنج بڑا ہو گیا ہے۔ سیدھے مقابلے میں کانگریس نئی طاقت اور جوش کے ساتھ اس کا راستہ روکے کھڑی ہے۔ ’کانگریس تو نمٹ گئی‘ والے جذبہ سے انتخابی میدان میں اتری بی جے پی کو اس کا یہی غرور غالباً لے کر ڈوب رہا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ ایگزٹ پول میں جو امکانات ظاہرکیے گئے ہیں وہ غلط ثابت ہوں، لیکن اتنا تو طے ہو گیا ہے کہ کانگریس نے بی جے پی کے ’وجے رَتھ‘ کی راہ میں رخنہ پیدا کر دیا ہے۔ ویسے ایگزٹ پول سے اگر درست انتخابی تصویر اور تجزیہ جاننا ہو تو ہمیشہ ووٹ شیئر کو دھیان میں رکھنا چاہیے۔ اور ان تینوں ریاستوں میں ایک کامن فیکٹر سبھی ایگزٹ پول میں ہے اور وہ ہے بی جے پی کے ووٹ شیئر میں گراوٹ۔ راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش تینوں ریاستوں میں بی جے پی کو 8 سے 9 فیصد تک ووٹوں کا نقصان ہوتا نظر آ رہا ہے۔ بی جے پی کے ووٹوں کا یہ نقصان سیدھے سیدھے کانگریس کی طرف سوئنگ ہوا ہے۔ یہی کانگریس کی از سر نو زندگی اور بی جے پی کے زوال کی نشاندہی کرتا ہے۔

اب اگر ان تینوں ریاستوں کے ایگزٹ پول کے مدنظر لوک سبھا انتخاب کا اندازہ دلائل کی بنیاد پر لگایا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان 62 میں سے نصف سیٹیں تو بی جے پی کے ہاتھ سے نکل جائیں گی۔ ہندی بیلٹ کی دوسری ریاستوں کی طرف دیکھیں تو مرکزی اقتدار کا سب سے اہم راستہ اتر پردیش کے تعلق سے بھی ناممکن ہی نظر آ رہا ہے کہ بی جے پی 2014 والی کامیابی دوہرا پائے گی۔ مرکزی وزیر داخلہ اور 2014 لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی صدر رہے راج ناتھ سنگھ خود ایک ٹی وی انٹرویو میں مان چکے ہیں کہ انھیں آئندہ لوک سبھا انتخاب میں 20-15 سیٹوں کا نقصان ہوگا۔ یو پی کی پڑوسی ریاست بہار جائیں تو بھلے ہی آج وہاں مہاگٹھ بندھن کو دھوکہ دے کر بی جے پی سے اتحاد کرنے والی جے ڈی یو کا بی جے پی کو ساتھ ہے، لیکن حال کے کچھ واقعات سے اشارہ مل رہا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔ گزشتہ بار بی جے پی کو بہار کی 40 میں سے 22 سیٹیں ہاتھ لگی تھیں، لیکن اس بار تو اس نے پہلے ہی 5 سیٹوں پر اپنی شکست مان کر 17 پر ہی انتخاب لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔

اب شمال کی ہی ریاست اتراکھنڈ، پنجاب، ہریانہ، ہماچل کی طرف جائیں تو ان ریاستوں میں بھی حالت ایم پی، راجستھان اور چھتیس گڑھ جیسی ہی نظر آتی ہے۔ اتراکھنڈ میں تو حالت بے حد خراب نظر آتی ہے، وہیں پنجاب میں بی جے پی کا اپنا پہلے بھی کچھ نہیں تھا اور گزشتہ اسمبلی انتخاب میں اس کی معاون اکالی دل کی شکست نے اس کے راستے ویسے ہی مشکل کر دیے ہیں۔ دھیان رہے کہ 2014 کی لہر میں بھی پنجاب میں موجودہ حکومت کے وزیر مالیات ارون جیٹلی جیت نہیں درج کر پائے تھے۔

مغرب کی ریاستوں میں گجرات اور مہاراشٹر اہمیت کی حامل ہیں۔ 2014 کو چھوڑ دیں تو گجرات میں جب پی ایم مودی وزیر اعلیٰ تھے تب بھی لوک سبھا انتخاب میں گجرات کی 26 سیٹوں میں سے نصف سیٹیں تو کانگریس جیتتی ہی رہی ہے۔ مہاراشٹر بھی بی جے پی کے ہاتھ سے نکلتا نظر آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ کسانوں، دلتوں، نوجوانوں، تاجروں اور متوسط درجہ کے کاروباریوں کی ناراضگی تو ابھی دیکھنا باقی ہی ہے۔ تو ’مترو...‘ اگر نیوز چینل ان انتخابات کو اقتدار کا سیمی فائنل بتا رہے تھے تو سیمی فائنل میں تو بی جے پی کے حصے شکست ہی نظر آ رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Dec 2018, 2:09 PM