پارلیمنٹ اجلاس: لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں کانگریس لیڈران نے اٹھائے اہم ایشوز، آئیے جانیں کس نے کیا کہا!
بہار سے کانگریس رکن پارلیمنٹ منوج کمار نے لوک سبھا میں کہا کہ ’’میرا اور میرے کنبہ کا کبھی بھی قتل ہو سکتا ہے۔ یہ مجرم طبقہ کے لوگ مجھے کبھی بھی مار دیں گے۔ میری التجا ہے کہ میری حفاظت کی جائے۔‘‘

پارلیمنٹ آف انڈیا
پارلیمنٹ اجلاس میں 11 فروری کو کانگریس اراکین پارلیمنٹ نے کئی اہم موضوعات کو اٹھایا اور مرکزی حکومت کے کچھ فیصلوں کو ہدف تنقید بنانے کے ساتھ ساتھ کچھ سنجیدہ سوالات بھی قائم کیے۔ آئیے یہاں نظر ڈالتے ہیں کانگریس اراکین پارلیمنٹ کے ان اہم بیانات پر جو سنجیدہ غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔
منیش تیواری (لوک سبھا رکن):
امریکہ میں 7 لاکھ 25 ہزار ایسے ہندوستانی ہیں جن کے پاس ضروری کاغذات نہین ہیں۔ 24 ہزار لوگ امریکہ کی حراست میں ہیں۔ 487 افراد کو ڈیپورٹیشن کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں سے 287 لوگوں کو ہندوستانی شہری کے طور پر نشان زد کر لیا گیا ہے۔ میرا سوال ہے کہ ’’یہ جو نام نہاد غیر قانونی مہاجرین ہیں، یہ کوئی دہشت گرد نہیں ہیں۔ یہ اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے باہر گئے تھے۔ کیا ان سبھی کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر واپس لایا جائے گا؟‘‘
ورشا گائیکواڈ (لوک سبھا رکن):
انڈین ریلوے میں مارچ 2020 تک سینئر شہریوں کو ریلوے ٹکٹ میں رعایت ملتی تھی، لیکن اب یہ رعایت بند کر دی گئی۔ پہلے میل، ایکسپریس، راجدھانی، شتابدی، دورنتو جیسی ٹرینوں میں 60 سال کے مردوں کو 40 فیصد اور 58 سال کی خواتین کو 50 فیصد تک چھوٹ ملتی تھی۔ اس سہولت سے لاکھوں لوگوں کو فائدہ ہوتا تھا، لیکن کورونا کے وقت سے یہ سہولت بند کر دی گئی۔ حالانکہ اب حالات معمول پر ہیں۔ اس لیے میرا مطالبہ ہے کہ سینئر شہریوں کو ریلوے ٹکٹ میں ملنے والی رعایت پھر سے شروع کی جائے۔
منوج کمار (لوک سبھا):
میرے اوپر گزشتہ 30 جنوری کو حملہ ہوا۔ مجھے دلت سمجھ کر مارا گیا، لیکن انتظامیہ کے سبھی لوگ خاموش تماشائی بنے رہے۔ ہمارے ہی قریبی رشتہ داروں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ میرے ڈرائیور کو مار کر ادھ مرا کر دیا گیا اور مجھ پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا۔ میرا اور میرے کنبہ کا کبھی بھی قتل ہو سکتا ہے۔ یہ مجرم طبقہ کے لوگ مجھے کبھی بھی مار دیں گے۔ میری گزارش ہے کہ میں ایک دلت، مزدور کا بیٹا ہوں... میری حفاظت کی جائے۔
ڈاکٹر امر سنگھ (لوک سبھا):
شری فتح گڑھ صاحب میں کئی ساری ایم ایس ایم ای انڈسٹری ہیں۔ وہاں جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکس کی وجہ سے پہلے ہی بہت مسائل ہیں۔ اب وہاں کی اسٹیل انڈسٹریز کو کوئلہ کی جگہ گیس سے آپریٹ کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ لیکن حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعہ گیس مہنگی کیے جانے کے سبب کئی ساری انڈسٹریز بند ہو رہی ہیں۔ میرا مرکزی حکومت سے مطالبہ ہے کہ منڈی گوبند گڑھ انڈسٹریل ایریا میں تقریباً 2 سے 3 لاکھ مزدور کام کرتے ہیں، اس لیے انھیں بند نہ ہونے دیں۔
راہل کسواں (لوک سبھا):
25 دسمبر 2000 کو وزیر اعظم دیہی سڑک منصوبہ ملک کے اندر نافذ ہوا۔ اس کا مقصد تھا کہ اس ملک کے ہر گاؤں کو ڈامر کی سڑک سے جوڑا جائے۔ گزشتہ 10 سال میں ہندوستانی حکومت نے دو اسکیمیں نکالیں- وزیر اعظم دیہی سڑک منصوبہ (فیز-2، فیز-3)- جس کی گائیڈلائن کہتی ہے کہ موجودہ سڑکوں کی چوڑا کاری کی جائے تاکہ وہ سڑکیں ایم ڈی آر زمرہ میں آ جائیں۔ میرا کہنا ہے کہ جب ہم فیز-2، فیز-3 میں دیہی سڑکوں کی چوڑاکاری کی گائیڈلائن کو فیز-4 میں نافذ کرتے تو سڑکوں سے جڑے مسائل کا حل ہو جاتا۔ ایسے میں میرا سوال ہے کہ کیا حکومت وزیر اعظم دیہی سڑک منصوبہ کی گائیڈلائن میں تبدیلی لا کر گاؤں کو کثیر جہت سے جوڑنے کی سہولت رکھتی ہے؟
رنجیت رنجن (راجیہ سبھا):
نیشنل سکل سیل انیمیا انسداد مشن میں قبائلی اکثریتی علاقوں کو نشان زد کیا گیا، جس میں تقریباً 5 کروڑ سے زیادہ آبادی کی جانچ کی گئی۔ میرا سوال ہے کہ اس جانچ میں کتنے انیمک نکلے؟ مجھے چھتیس گڑھ، یوپی اور بہار کا ایک ڈاٹا چاہیے، جس میں یہ بتایا جائے کہ کتنے صدر اسپتالوں، ہیلتھ سنٹرس اور ذیلی ہیلتھ سنٹرس میں ڈاکٹر، نرس اور میڈیکل اسٹاف کی بحالی ضروری ہے؟ اس کے ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ وہاں اس وقت کتنے اسٹاف کام کر رہے ہیں؟ کیا یہ درست ہے کہ ڈاکٹر اور میڈیکل اسٹاف کی کمی کے سبب ہم دیہی علاقوں میں بہتر طبی سہولیات نہیں پہنچا پا رہے ہیں؟
سکھجندر سنگھ رندھاوا (لوک سبھا):
میں پنجاب میں ڈرگس کے مسئلہ پر اپنی بات رکھ رہا ہوں، کیونکہ پنجاب کے پٹھان کوٹ سے فیروزپور تک پاکستان کا سرحد ہے۔ پاکستان پراکسی جنگ لڑ رہا ہے اور وہاں سے ہر روز ڈرون کے ذریعہ ڈرگس اور غیر قانونی اسلحے الگ الگ مقامات پر بھیجے جا رہے ہیں، جو کہ قومی سیکورٹی کے لیے خطرہ ہے۔ پنجاب میں گزشتہ دنوں کئی پولیس اسٹیشن، چوکیوں پر ہینڈ گرینیڈ سے حملے ہوئے، لیکن مقامی پولیس اور حکومت نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔
بیرون ممالک میں بیٹھے ریڈیکلس پنجاب کے گینگسٹرس سے مل کر نشہ اور اسلحہ کا کاروبار چلا رہے ہیں، لیکن ریاست میں پنجاب کی حکومت گینگسٹرس پر کوئی کارروائی نہیں کر رہی، الٹا ان کے کنبوں کو سیکورٹی دی جا رہی ہے۔ پولیس اسٹیشن پر ہوئے ہینڈ گرینیڈ حملوں کی جانچ این آئی اے کو کرنی چاہیے اور میں نے وزیر داخلہ کو بھی خط لکھا ہے کہ پنجاب کے ایسے لاء اینڈ آرڈر انتظام پر ایکشن لیا جائے۔
گرجیت سنگھ اوجلا (لوک سبھا):
چائنیز مانجھے کا مسئلہ آج ملک میں بہت سنگین ہے۔ ملک میں پتنگ بازی کے درمیان چائنیز مانجھے کے سبب کئی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایسے میں میری حکومت سے گزارش ہے کہ ایک ایسا قانون بنائے، جس میں چائنیز مانجھے کی درآمدات کرنے والوں، مانجھے کو ملک میں بنانے والوں اور فروخت کرنے والوں پر 302 کے تحت کیس درج ہو۔
جیوتسنا چرن داس مہنت (لوک سبھا):
کوربا ایک صنعتی شہر ہے۔ یہاں بہت ساری صنعتیں ہیں، جہاں بڑی تعداد میں منظم اور غیر منظم مزدور کام کرتے ہیں۔ یہاں بہت زیادہ آلودگی ہونے کے سبب بہت ساری بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ یہاں ای ایس آئی سی اسپتال ہے، لیکن کروڑوں کی لاگت سے بنا یہ اسپتال اسٹاف اور وسائل کی کمی کے سبب صرف ایک ریفر سنٹر بن گیا ہے۔ اس لیے میں وزیر صھت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ ای ایس آئی سی میں لوگوں کے بہتر علاج کی سہولت اور وسائل دستیاب کروائیں۔
شیام کمار باروے (لوک سبھا):
میرے علاقہ میں سویابین، سنترا، مرچ کی فصل ہوتی ہے، جس میں یوریا کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن بی جے پی حکومت نے یوریا کی بوری 50 کلو سے گھٹا کر 45 کلو کر دیا ہے۔ ایسے میں ربیع اور خریف فصل کے وقت کسانوں کو یوریا کم ملتا ہے، جس سے ان کا نقصان ہوتا ہے۔ حکومت کے پاس کسانوں کے کھیتوں کا ڈاٹا ہونے کے باوجود بھی انھیں الگ سے ایک پروڈکٹ فروخت کیا جاتا ہے، جس سے زراعت میں ان کا خرچ بڑھ جاتا ہے اور کسان خودکشی کرنے کو مجبور ہوتا ہے۔ حکومت کیمیائی کھاد بنانے والی کمپنی کو حکم دے کہ وہ لنکنگ پروڈکٹ فروخت کرنا بند کریں۔ ایوان میں کئی اراکین پارلیمنٹ نے اس معاملے کو اٹھایا، لیکن حکومت کے ذریعہ اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
اشوک سنگھ (راجیہ سبھا):
ملک میں وزیر مالیات نے ایک ’لوک لُبھاون‘ بجٹ پیش کیا ہے، جس میں اعداد و شمار کے ذریعہ غریب اور متوسط طبقہ کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کسانوں کو ڈی اے پی اور کھاد کے لیے لمبی لائن لگانی پڑتی ہے، کسانوں پر قرض بڑھتا جا رہا ہے اور ان کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے، کسانوں کے لیے ایم ایس پی کو لے کر بھی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جس طرح یو پی اے حکومت نے کسانوں کا قرض معاف کیا تھا، اسی طرح کسانوں کے قرض معاف کیے جائیں۔
رجنی پاٹل (راجیہ سبھا):
اقتصادی سروے-2025 کے مطابق مردوں اور خواتین کی حقیقی آمدنی میں گراوٹ آئی ہے۔ اس سے جڑے کچھ اہم اعداد و شمار یہ ہیں...
وزارت برائے ترقی خواتین و اطفال نے گزشتہ سال کے مقابلے میں بجٹ میں صرف 3 فیصد کا اضافہ کیا ہے۔
’سکشم آنگن واڑی اور پوشن 2.0‘ منصوبہ کا بجٹ 25-2024 میں 21200 کروڑ روپے سے بڑھا کر صرف 21960 کروڑ کیا گیا ہے۔
جنڈر بجٹ میں بھی گراوٹ آئی ہے۔ یہ رواں سال میں 112396 کروڑ روپے سے گھٹ کر 105535 کروڑ روپے ہو گیا ہے۔
’جَل جیون مشن‘ کے بجٹ میں خواتین کے لیے 31 فیصد الاٹنمنٹ مقرر کیا گیا ہے، جبکہ گزشتہ دو مالی سالوں میں خواتین کے لیے یہ الاٹمنٹ 49 فیصد تھا۔
’پردھان منتری آواس یوجنا‘ یقینی کرتی ہے کہ 100 فیصد الاٹمنٹ خواتین کے لیے ہو، لیکن منصوبہ شروع ہونے کے بعد سے یکم فروری 2025 تک صرف 23 فیصد ہی الاٹمنٹ خواتین کے نام ہوئے ہیں، یہ افسوسناک ہے۔
اس گراوٹ کا اثر پردھان منتری آواس یوجنا، شہری و غریب کنبہ منصوبہ ایل پی جی کنکشن کے بجٹ پر بھی پڑا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔