بجٹ 2023 کو اپوزیشن نے بتایا ’خوابوں کا سوداگر‘، کانگریس نے اسے محض لفاظی سے تعبیر کیا

مودی حکومت کے ذریعہ پیش کیے گئے بجٹ 2023 سے اپوزیشن کے لیڈران ناخوش نظر آ رہے ہیں، کانگریس نے اسے لفاظی ٹھہرایا ہے تو کئی دیگر اراکین پارلیمنٹ نے اسے ’خوابوں کا سوداگر‘ بتایا ہے۔

پارلیمنٹ، تصویر یو این آئی
پارلیمنٹ، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

مرکز کی مودی حکومت نے عام بجٹ پیش کر دیا ہے۔ اس دوران وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے کئی بڑے اور ظاہری طور پر عوام کو خوش کرنے والے وعدے کیے۔ اس بجٹ پر اب اپوزیشن کا رد عمل بھی آنا شروع ہو گیا ہے۔ کانگریس سمیت کئی اپوزیشن لیڈران اس بجٹ سے ناخوش دکھائی دے رہے ہیں۔

کانگریس جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے کہا کہ یہ بجٹ ملک کے حقیقی مسائل کو مخاطب نہیں کر رہا ہے جو کہ بے روزگار اور مہنگائی ہے۔ اس میں صرف پرکشش اعلانات تھے جو پہلے بھی کیے گئے تھے لیکن اس پر عمل درآمد کے بارے میں کیا؟ پی ایم کسان یوجنا سے صرف بیمہ کمپنیوں کو فائدہ ہوا، کسانوں کو نہیں۔


کانگریس رکن پارلیمنٹ گورو گگوئی نے کہا کہ اس بجٹ سے غریبوں کو صرف لفاظی ملی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری کا کوئی حل نہیں دکھایا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بجٹ کا فائدہ بڑے صنعت کاروں کو ہی ہوتا ہے۔ ٹیکس پر گگوئی نے کہا کہ مہنگائی کو دیکھتے ہوئے 7 لاکھ روپے تک کی ٹیکس چھوٹ متوسط طبقہ کے لیے سمندر میں بوند کی طرح ہے۔

جنتا دل یو رکن پارلیمنٹ راجیو رنجن نے بجٹ میں ’کچھ نہیں‘ ہونے کی بات کہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ خوابوں کا سوداگر جیسا ہے۔ جب آپ خواب کے بعد جاگتے ہیں تو کچھ بھی سچ نہیں ہوتا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ مہنگائی اور بے روزگاری کو کس طرح قابو میں کیا جائے، اس بارے میں اس بجٹ میں کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔


سماجوادی پارٹی رکن پارلیمنٹ ڈمپل یادو کا کہنا ہے کہ یہ انتخابی بجٹ ہے، کسانوں کے لیے اس میں کچھ نہیں ہے۔ کسانوں کی ایم ایس پی کی بات ہی نہیں کی گئی ہے۔ ریلوے کو پوری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔ نصف سے زیادہ آبادی گاؤں میں بستی ہے لیکن ان کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔ یہ بہت ہی مایوس کن بجٹ ہے۔

اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے بھی اس بجٹ پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’بی جے پی اپنے بجٹ کی دہائی مکمل کر رہی ہے، لیکن جب عوام کو پہلے کچھ نہ دیا تو اب کیا دے گی۔ بی جے پی کا بجٹ مہنگائی و بے روزگار کو مزید بڑھاتا ہے۔ کسان، مزدور، نوجوان، خواتین، نوکری پیشہ، کاروباری طبقہ میں اس سے امید نہیں مایوسی بڑھتی ہے کیونکہ یہ چند بڑے لوگوں کو ہی فائدہ پہنچانے کے لیے بنتا ہے۔‘‘


دوسری طرف پی ڈی پی چیف محبوبہ مفتی نے کہا کہ یہ بجٹ وہی ہے جو گزشتہ 9-8 سال سے آ رہا تھا۔ ٹیکس بڑھائے گئے، فلاحی منصوبوں اور سبسیڈی پر پیسہ خرچ نہیں کیا جا رہا ہے۔ کچھ سانٹھ گانٹھ والے سرمایہ داروں اور بڑے کاروباریوں کے لیے ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ عوام کو ٹیکس سے فائدہ ہونا چاہیے، لیکن اس سے اس کی کمر ٹوٹ رہی ہے۔

بی ایس پی چیف مایاوتی نے تو بجٹ پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے سخت الفاظ کا استعمال کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ملک میں پہلے کی طرح گزشتہ 9 سالوں میں بھی مرکزی حکومت کے بجٹ آتے جاتے رہے جس میں اعلانات، وعدوں، دعووں و امیدوں کی بارش کی جاتی رہی، لیکن وہ سب بے معنی ہو گئے جب ہندوستان کا مڈل کلاس مہنگائی، غریبی و بے روزگاری وغیرہ کی مار کے سبب ذیلی مڈل کلاس بن گیا۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ اس سال کا بجٹ بھی کوئی زیادہ مختلف نہیں۔ گزشتہ سال کی خامیاں کوئی حکومت نہیں بتاتی اور نئے وعدوں کی پھر جھڑی لگا دیتی ہے، جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ 100 کروڑ سے بھی زیادہ عوام کی زندگی ویسے ہی داؤ پر لگی رہتی ہے جیسے پہلے تھی۔ لوگ امیدوں کے سہارے جیتے ہیں، لیکن جھوٹی امیدیں کیوں؟


بجٹ پر بہار کے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے کہا کہ یہ بجٹ ’نل بٹا سناٹا‘ ہے، اس میں بہار کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ مرکز میں بہار کے جتنے اراکین پارلیمنٹ ہیں انھیں شرم سے ڈوب جانا چاہیے۔ کسانوں کے لیے، ریلوے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ تیجسوی نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ یو پی اے حکومت میں بہار کو جتنا دیا جاتا تھا، کیا اس حکومت نے دیا؟

آر جے ڈی رکن پارلیمنٹ منوج جھا نے بجٹ کے تعلق سے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے وزیر مالیات کو کئی بار کہا ہے کہ جب بھی بجٹ بنائیں تو آرٹیکل 39 کو دیکھ لیں۔ آئین سے آنکھیں موند کر تعریف والا بجٹ بناتے ہیں تو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ روزگار کے لیے آپ نے گول گول باتیں کیں۔ یہ بجٹ خاص لوگوں کا، خاص لوگوں کے ذریعہ، خاص طرح سے بنایا بجٹ ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */