مانسون اجلاس کا تیسرا دن: ’ایس آئی آر‘ پر اپوزیشن کا زبردست احتجاج، ’آپریشن سندور‘ پر بھی جواب طلب، آج بھی ہنگامہ کے آثار
مانسون اجلاس کے پہلے دو دن ایس آئی آر اور آپریشن سندور پر اپوزیشن نے زوردار احتجاج کیا اور دونوں ایوانوں کی کارروائی بار بار ملتوی کرنی پڑی۔ اجلاس کے تیسرے دن بھی ہنگامہ کے آثار نظر آ رہے ہیں

آئی اے این ایس
نئی دہلی: پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کا تیسرا دن بھی ہنگامہ کی نذر ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ بہار میں ووٹر لسٹوں کی خصوصی گہری نظر ثانی (ایس آئی آر) اور پہلگام حملے کے بعد شروع ہوئے ‘آپریشن سندور‘ جیسے حساس معاملات پر اپوزیشن حکومت کو گھیرنے کے لیے پوری تیاری کے ساتھ میدان میں ہے۔ گزشتہ دو دنوں کی طرح منگل کو بھی ایوان کی کارروائی میں بار بار خلل پڑا اور بدھ کے روز اس کے مزید شدت اختیار کرنے کا امکان ہے۔
ایس آئی آر: اپوزیشن کا بنیادی اعتراض
منگل کو جیسے ہی ایوان کی کارروائی کا آغاز ہوا، اپوزیشن نے بہار میں ایس آئی آڑ پر زبردست احتجاج کیا۔ ان کا الزام ہے کہ اس عمل کے ذریعے ووٹنگ کے بنیادی حق کو محدود کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، اور مخصوص طبقوں کو ووٹ کے عمل سے باہر کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے کانگریس، سماجوادی پارٹی، ڈی ایم کے، آر جے ڈی اور بائیں بازو کی جماعتوں نے اس معاملے پر فوری بحث اور وزیر اعظم کے بیان کا مطالبہ کیا۔
اپوزیشن ارکان ایوان کے اندر اور باہر تختیاں لے کر مظاہرہ کرتے نظر آئے۔ ’ایس آئی آر واپس لو‘ اور ’آئینی حق چھیننا بند کرو‘ جیسے نعرے ایوان میں گونجتے رہے۔ راہل گاندھی، اکھلیش یادو، پرینکا گاندھی، منوج جھا اور دیگر سرکردہ لیڈران نے پارلیمنٹ کے ’مکر دروازہ‘ کے باہر بھی مظاہرہ کیا اور حکومت پر جمہوری اقدار کو روندنے کا الزام لگایا۔
’آپریشن سندور‘ پر جواب مانگا گیا
اسی دوران پہلگام میں ہوئے دہشت گرد حملے اور اس کے بعد شروع کیے گئے ’آپریشن سندور‘ پر بھی اپوزیشن نے حکومت کو نشانے پر لیا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ یہ سکیورٹی سے جڑا معاملہ ہے اور وزیر اعظم کو خود ایوان میں آ کر اس پر بیان دینا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں ایسے حساس معاملات پر خاموشی جمہوری روایت کے منافی ہے۔
اپوزیشن پارٹیوں کے ارکان نے منگل کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ’ایس آئی آر‘ کے آئینی اور انتخابی نتائج پر تفصیلی بحث کے لیے التوا کی تحریک کا نوٹس بھی پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ صرف بہار کا نہیں بلکہ جمہوریت کی بنیادوں سے جڑا قومی معاملہ ہے۔
ایوان کی کارروائی بار بار ملتوی
منگل کے روز لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں میں کام کاج لگاتار متاثر ہوتا رہا۔ ایوان کی کارروائی جیسے ہی شروع ہوئی، ہنگامے کے سبب پہلے اسے 12 بجے تک، پھر 2 بجے اور بالآخر پورے دن کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔ وقفہ سوالات اور وقفہ صفر مکمل طور پر ضائع ہو گیا۔ راجیہ سبھا میں بھی اسی طرح 11 بجے شروع ہونے والی کارروائی چند ہی منٹوں میں معطل کر دی گئی اور پورے دن کے لیے برخاست کرنی پڑی۔
لوک سبھا اسپیکر اوم برلا نے اپوزیشن ارکان سے بارہا اپیل کی کہ وہ تختیاں نہ لائیں اور کارروائی چلنے دیں لیکن ہنگامہ نہ رکا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں طے ہوا تھا کہ پوسٹرز نہیں لائے جائیں گے، مگر اس کے باوجود اپوزیشن نے اس فیصلے کو نظر انداز کیا۔
حکومت کی ’مشروط‘ آمادگی
اپوزیشن کے الزامات کے بیچ حکومت نے دعویٰ کیا کہ وہ ہر موضوع پر بحث کے لیے تیار ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ایوان کی کارروائی میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ وزیر پارلیمانی امور کرن رجیجو نے کہا کہ بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں ’آپریشن سندور‘ پر بحث کا وقت طے کیا جا چکا ہے مگر اپوزیشن ایک ساتھ سبھی موضوعات پر فوری بحث کی ضد کر رہی ہے۔ انہوں نے اپوزیشن پر دوہرے معیار اپنانے اور قیمتی وقت برباد کرنے کا الزام عائد کیا۔
تاہم، اپوزیشن کا مؤقف یہ ہے کہ حکومت صرف دکھاوے کے لیے بحث کی بات کر رہی ہے، اصل میں وہ ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے اور جب ایوان میں حساس سوالات اٹھائے جاتے ہیں تو جواب دینے سے بچنے کے لیے کارروائی ملتوی کروا دیتی ہے۔
نائب صدر کے استعفیٰ پر خاموشی بھی زیرِ سوال
منگل کو راجیہ سبھا میں نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ کے اچانک استعفیٰ کی اطلاع دی گئی۔ اس معاملے پر سی پی آئی کے رکن پی سندوش کمار نے بحث کا نوٹس دیا تھا لیکن نائب چیئرمین ہری ونش نے اس کو مسترد کر دیا، جس پر اپوزیشن نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئینی عہدے پر بیٹھے شخص کا اس طرح غیر متوقع انداز میں استعفیٰ جمہوری شفافیت کے تقاضوں کے برعکس ہے۔
آج بھی ہنگامے کے امکانات، وزیراعظم کا بیرون ملک دورہ
بدھ کو اجلاس کے تیسرے دن بھی ایوان میں شدید ہنگامے کا امکان ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی آج برطانیہ کے دورے پر روانہ ہونے والے ہیں۔ اپوزیشن اس موقع پر ’آپریشن سندور‘ کا مسئلہ اٹھا کر وزیراعظم کے غیر موجود ہونے کو تنقید کا نشانہ بنا سکتی ہے۔
مانسون سیشن کے ابتدائی دو دنوں میں نہ سوال پوچھے جا سکے، نہ عوامی مسائل پر کوئی سنجیدہ بحث ہو سکی۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا، تو سیشن کا بیشتر حصہ صرف ہنگاموں اور کارروائی کے التوا کی نذر ہو جائے گا۔