اپوزیشن ارکان کا پارلیمنٹ سے مکمل صفایا! تاکہ سخت بلوں کو بغیر بحث منظور کرایا جا سکے: کانگریس

متعدد ارکان اسمبلی کو سرمائی اجلاس کے بقیہ حصے کے لیے معطل کیے جانے کے بعد کانگریس نے حکومت پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ بغیر کسی معنی خیز بحث کے سخت بلوں کو پاس کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے

<div class="paragraphs"><p>جے رام رمیش / آئی اے این ایس</p></div>

جے رام رمیش / آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: لوک سبھا کے 49 ارکان اسمبلی کو سرمائی اجلاس کے بقیہ حصے کے لیے معطل کیے جانے کے بعد کانگریس نے حکومت پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ بغیر کسی معنی خیز بحث کے سخت بلوں کو پاس کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ نئی پارلیمنٹ نموکریسی (نریندر مودی اور ڈیموکریسی کو ملا کر بنایا گیا لفظ) کی من مانی کی عکاسی کرتی ہے۔

کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے بی جے پی پر طنز کرتے ہوئے کہا، ’’انڈیا بلاک کے کم از کم 50 سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ کو آج لوک سبھا سے معطل کر دیا گیا۔ مکمل صفایا کیا جا رہا ہے، تاکہ سخت بلوں کو بغیر کسی معنی خیز بحث کے منظور کیا جا سکے اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ پارلیمنٹ 13 دسمبر کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے والے دو دراندازوں کے داغ سے بے نیاز ہو جائیں۔‘‘


انہوں نے کہا، ’’نئی پارلیمنٹ اپنی تمام زیادتیوں میں جمہوریت کی عکاسی کرتی ہے۔ دریں اثنا، 49 معطل ارکان پارلیمنٹ میں سے ایک ششی تھرور نے کہا، ’’تقریباً 15 سال کے اپنے پارلیمانی کیریئر میں پہلی بار میں بھی حالیہ سیکورٹی کی خلاف ورزی پر بحث کرنے کے لیے ایک پلے کارڈ لے کر ایوان کے ویل میں داخل ہوا۔‘‘

تھرور نے کہا، ’’میں نے یہ اپنے کانگریس کے ساتھیوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر کیا جنہیں حکومت سے جوابدہی کا مطالبہ کرنے کے لیے ناحق معطل کیا گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ معطلی پر عمل کیا جائے گا۔ ایک غیر منصفانہ عمل سے میری تذلیل ہونا، احترام کی علامت ہے!‘‘


خیال رہے کہ منگل کو سرمائی اجلاس کی بقیہ مدت کے لیے 49 ارکان پارلیمنٹ کو معطل کر دیا گیا۔ پیر کو لوک سبھا کے 33 اور راجیہ سبھا کے 45 ارکان پارلیمنٹ کو معطل کر دیا گیا تھا۔ 14 دسمبر کو 13 لوک سبھا ارکان پارلیمنٹ اور ایک راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ کو معطل کر دیا گیا تھا۔ کل 141 ارکان پارلیمنٹ کو اس وقت معطل کر دیا گیا ہے جب انہوں نے وزیر داخلہ امت شاہ سے پارلیمنٹ کی سیکورٹی کی خلاف ورزی پر تفصیلی بحث کا مطالبہ کیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔